"DLK" (space) message & send to 7575

فرحت اللہ بابر کی تشویش

پیپلز پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ریٹائر ہونے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنی الوداعی تقریر میں تہلکہ خیز ریمارکس دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک عرصے سے ریاست کے اندر ایک ریاست ابھر چکی ہے جس سے موجودہ نظام کے ڈھانچوں میں ٹکرائو کا شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک قانونی ریاست ہے لیکن حقیقی غلبہ اور عملداری ایک غیر علانیہ ریاست کی چل رہی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے معاملے میں حکومت اور قانونی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا اور 'ڈی فیکٹو ریاست‘ نے 'سرنڈر‘ کے معاہدے پر دستخط کئے۔ بابر صاحب نے پارلیمنٹ کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پارلیمنٹ اِس 'ڈی فیکٹو ریاست‘ کا خاتمہ نہیں کرتی تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
اگر غور کریں تو یہ انکشافات اتنے حیران کن نہیں ہیں۔ اگر کوئی غیر معمولی امر ہے تو وہ یہ ہے کہ مروجہ سیاست کے ایک منجھے ہوئے سیاستدان نے اپنی گھبراہٹ اور تشویش کا اظہار کھلے عام کر دیا ہے۔ اِس حاکمیت کے ماہرین اور سامراجی پالیسی ساز پہلے سے ہی انتباہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ تشویش سنجیدہ شکل اس وجہ سے اختیار کر گئی ہے کہ اداروں کے خلاف لفاظی پر نواز شریف اور مریم نواز کی مہم نہ صرف خاصے بڑے جلسے ابھارنے میں کامیاب ہوئی ہے بلکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ حکمران طبقے کے کسی مستند لیڈر نے اپنے ہی نظام کے اداروں کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ نواز شریف چاہے اپنے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے غم و غصے میں ہی اس انتہا تک گئے ہیں لیکن یہ بھی اِس سیاست اور ریاست کے بحران کی غمازی کرتا ہے۔ کئی دہائیوں تک اس ملک کے اداروں کا جو تقدس اور احترام معاشرے میں استوار کروایا گیا تھا‘ اسے پہلی بار ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اگرچہ نواز شریف اسی نظام کا پرزہ ہیں اور وہ صرف اصلاحات کے ذریعے سیٹ اپ کو اپنی سیاست کے لئے موافق بنانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس عمل میں بھی وہ مروجہ سیاست کی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ کوٹلہ (گجرات) کے جلسے میں اس نے صرف ووٹ ڈالنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ ''انقلاب‘‘ کے لئے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کریں۔ گھر، انصاف اور چند دوسری عوامی ضروریات کی مفت یا سہل فراہمی کا وعدہ بھی کیا‘ لیکن نواز شریف کا ''انقلاب‘‘ اسی نظام کے اندر مقید ہے جو ان کے طبقے کی حکمرانی کا ضامن اور محافظ ہے۔ یوں نواز شریف سے کسی سماجی اور معاشی انقلاب کی توقع کرنا درست نہ ہو گا۔ لیکن لوگوں کی جانب سے اداروں کے خلاف نہ صرف تقریریں سننا بلکہ ان کی پذیرائی اور حمایت بھی کرنا یہاں کے پالیسی سازوں کے لئے باعث تشویش ہے‘ کیونکہ سماج کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ان کی ساکھ خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ 
بابر صاحب نے ڈی فیکٹو ریاست کے ابھرنے کا جو گلہ کیا ہے اس سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی جیورے یعنی قانونی اور جمہوری ریاست میں ایسی کون سی کمزوریاں تھیں کہ اس کو پچھاڑ کر ڈی فیکٹو ریاست مسلط ہو گئی ہے۔ اس عمل کو جانچنے کے لئے تاریخی وجوہات بالخصوص یہاں کے حکمران طبقات کے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔ پاکستان کے بانی حکمران طبقات کا خیال تھا کہ وہ ایک الگ منڈی حاصل کرکے ایسی ٹھوس معاشی بنیادیں استوار کر پائیں گے جن کے اوپر مغربی طرز کی پارلیمانی سیاست اور جدید قومی ریاست تعمیر ہو سکے گی‘ لیکن براہِ راست اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تاریخی طور پر تاخیر زدہ پایا۔ وہ نہ صرف مالیاتی بلکہ تکنیکی حوالے سے انتہائی پسماندہ تھے۔ یہاں کی سرمایہ داری میں عالمی منڈی میں سامراجی اجارہ داریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت موجود نہیں تھی۔ اِسی طرح یہ پسماندہ سرمایہ داری‘ جاگیرداری کی باقیات کا خاتمہ کرکے ایک یکجا اور جدید قومی ریاست کی تشکیل کے قابل نہیں تھی۔ یوں سامراج کے تسلط میں قومی سالمیت روزِ اول سے ہی ایک خواب بن گئی۔ ایسے میں اِن حکمران طبقات کا کردار سامراج کی کاسہ لیسی پر مبنی رہا۔ داخلی طور پر اپنے مالیاتی وجود کو برقرار رکھنے اور ابتدائی سرمائے کے حصول کے لئے وہ بدعنوانی پر منحصر تھے جس کے لئے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ رفتہ رفتہ یہی ریاستی مشینری اِس بدعنوانی میں شریک اور حصہ دار ہوتی چلی گئی۔ قومی مفادات آخری تجزئیے میں اسی طبقے کے مفادات ہوتے ہیں جس کے پاس تمام تر وسائل اور ذرائع پیداوار کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہ تو بالکل واضح اور سامنے کی بات ہے کہ جب ریاستی مشینری خود ہی بدعنوانی میں شریک ہو جائے تو پھر نہ صرف ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے‘ عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں‘ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں چلا جاتا ہے‘ نئے نئے معاشرتی مسائل ابھرنے لگتے ہیں بلکہ ملک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے‘ جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے بھی کچھ قوتیں آگے آ جاتی ہیں۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں بھی قصور ان قوتوں کا ہوتا ہے‘ جو عوام کی طاقت سے برسرِ اقتدار آنے کے باوجود کچھ ڈلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ وہ اگر کچھ ڈلیور کریں‘ عوام کے مسائل حل کریں‘ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دیں تو ظاہر ہے ایسی صورتحال پیدا نہ ہو‘ جو ہمارے سیاسی رہنمائوں کو بے چین کر دیتی ہے۔
جوں جوں شرح منافع قائم رکھنے کے لئے مزید بدعنوانی، ٹیکس چوری، بینکوں کے قرضوں کے غبن اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کی ضرورت بڑھنے لگی تو حکمرانوں کے مختلف دھڑوں اور ان کے پاسداروں کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات بھی بڑھنے لگے۔ یہ لڑائی اب اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ اس نظام کے تحت کام کرنے والے اداروں میں بھی تضادات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ اداروں کی مداخلت اور پس پردہ مگر عوامی شعور میں بے نقاب تسلط بہت بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں اگر بابر صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ تمام اداروں کو اپنی 'قانونی حدود‘ میں رہ کر کام کرنا چاہیے تو یہ جن کو واپس بوتل میں بند کرنے والی بات ہے۔ کیونکہ اس معاشرے کے معاشی نظام کا بحران اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ اس نے تمام بالائی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں کبھی 'حقیقی جمہوریت‘ ہوا کرتی تھی وہاں بھی ریاستیں انتشار کا شکار ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں تو صحت مند سرمایہ دارانہ ادارے کبھی استوار ہی نہیں ہو سکے۔ یہاں مسلسل عدم استحکام ہی ایک معمول رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی ہے۔ یہاں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی سالمیت، صحت مند جمہوریت اور استحکام کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں کے سرمایہ دار طبقات کی تاریخی نا اہلی کے پیش نظر سماج کو پسماندگی اور ذلت سے نکال کر ترقی دینے کا فریضہ ناگزیر طور پر محنت کش طبقے کو ادا کرنا ہو گا‘ جس کے لئے انہیں تمام معیشت کو اشتراکی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے کر اس ملک اور خطے کے بیش بہا وسائل کو منافع خوری کی بجائے انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے بروئے کار لانا ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں