سابق برطانوی وزیر اعظم، دوسری عالمی جنگ میں ''اتحادیوں‘‘ کے ہیرو اور پچھلی صدی کے آغاز میں برصغیر میں برطانوی سامراجی جارحیت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ونسٹن چرچل نے اپنی سوانح حیات ''میر ی ابتدائی زندگی‘‘ میں پاک افغان قبائلی علاقوں پر سامراجی جبر کے بارے میں جو لکھا‘ وہ مغربی سامراجیوں کے کردار کو عیاں کرتا ہے۔ آج سے سو سال سے زیادہ عرصہ قبل کے واقعات اور سامراجیوں کی نفسیات کے بارے میں چرچل لکھتا ہے ''(برطانوی) جو حاوی نسل ہیں وہ ان وحشیوں (قبائلیوں) کے خلاف ہولناک وار کریں گے۔ آج کے بعد ہم ہر گائوں اور ہر اس باسی کو جلا دیں گے جو ہمارے راستے میں آئے گا۔ ان (قبائلیوں) کو کاری سبق چاہیے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ( انگریز) بڑے ظالم لوگ ہیں۔ ہم بالترتیب چلیں گے۔ دیہات کے بعد دیہات، ان کے گھر تباہ کر دیں گے، ان کے کنوؤںکو بھر دیں گے اور ان کے ٹاور مسمار کر دیں گے۔ ان کے بڑے بڑے چھائوں دینے والے درخت کاٹ دیں گے، ان کی فصلیں جلا دیں گے اور ان کے اجناس کے ذخیرے ایسے برباد کریں گے کہ یہ تباہ کاری طویل عرصے تک ایک تعزیری سزا بن جائے گی‘‘۔ اس سوانح حیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سامراجی اس خطے کے عوام پر کیا ظلم ڈھانے کے ارادے رکھتے تھے اور انہوں نے کس قسم کی بربریت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن لبرل ازم، جمہوریت اور انسانی حقوق کا ناٹک کرنے والے ان سامراجیوں کی نفسیات اور ارادے آج اور اب بھی وہی ہیں اور پہلے سے زیادہ واضح بھی۔
ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی برطانیہ جیسے ممالک کی جانب سے جو کچھ ان عوام اور خطوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے‘ بلکہ کئی حوالوں سے یہ ظلم اور بربریت مزید ہولناک ہوئی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد اس کا اظہار پشتون تحفظ تحریک کی جدوجہد سے سامنے آیا ہے اور دنیا کو پتہ چلا ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی پورے برصغیر کے 1.7 ارب لوگوں کو کہیں معاشی بربادیوں‘ کہیں بارود کی تباہ کاریوں اور کہیں جبر و استحصال کا سامنا ہے۔ یہ آج بھی اذیتوں کا شکار ہیں۔ پشتون تحفظ تحریک کا ابھرنا کوئی اچانک ردِ عمل نہیں ہے‘ بلکہ ایک طویل عرصے سے موجود محرومی اور بڑھتی ہوئی بربادی سے غم اور غصے کا ذرہ ذرہ ان عوام اور خصوصاً نوجوانوں کے دلوں میں مجتمع ہو رہا تھا۔ یہ ایک ایسی تحریک کی شکل میں ابھرا ہے جو پُرتشدد نہیں ہے‘ لیکن چٹانوں جیسے حوصلے اور عزم سے سرشار ہے۔
افغانستان میں اپریل 1978ء میں جو انقلاب برپا ہوا تھا‘ اس نے پورے جنوبی ایشیا میں شاید پہلی مرتبہ یہاں سے اس نظام اور اس کی ریاست کا خاتمہ کیا تھا‘ جس سے یہ جبر و استحصال مسلط رہتا ہے۔ روس اور سوویت یونین کی قیادت بھی اس انقلاب سے اسی طرح بے خبر تھی جس طرح امریکی اور مغربی سامراجی۔ اس انقلاب کے بانی نور محمد ترکئی اور ان کے ساتھی جانتے تھے کہ ''امدادوں‘‘ سے انقلاب مسخ ہو جاتے ہیں اور ان کو ''قومی ریاستیں‘‘ اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ انقلاب کے 19 ماہ بعد روسی فوجوں نے افغانستان میں داخل ہو کر سب سے پہلے بائیں بازو کی اس حکومت کے سربراہ کو ہی قتل کر دیا تھا۔ لیکن اس انقلاب کی کامیابی اور اس کا پیہم ہونا اسی وقت ممکن تھا جب یہ انقلاب وسطی ایشیا اور خطے کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل جاتا اور اس کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا۔ اس کے وسعت اختیار کرنے کے بڑھتے ہوئے امکانات کے پیش نظر ہی امریکی سامراج کو اس خطے میں اپنے کنٹرول کے کم ہونے اور مفادات کے متاثر کا خطرہ لاحق ہوا۔ اسی لئے ضیاء الحق کی آمریت کے زیر انتظام سامراجیوں نے افغانستان میں جہاد شروع کروایا‘ اور آج 40 سال بعد ہم نہ صرف اس پورے خطے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی اس عمل کے ہولناک مضمرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ پھر صورتحال بدلی‘ امریکی سامراجی تو چلے گئے‘ لیکن ان کے دہشت گرد گماشتے منشیات اور جرائم کی صنعت سے حاصل کردہ کالے دھن کو بڑھانے کے لئے دہشت گردی کا بازار گرم رکھتے رہے۔ ''نئی گریٹ گیم‘‘ جاری رہی۔ دوسری سامراجی قوتیں گدھوں کی طرح اس خطے خصوصی طور پر افغانستان پر ٹوٹ پڑیں اور پھر 9/11 ہوا۔ سامراجیوں نے پھر افغانستان پر جارحیت کر کے اس کو تاراج کیا۔ دوسری جانب کالا مالیاتی سرمایہ اور دوسری سامراجی ریاستوں کی پشت پناہی میں یہ جہادی‘ جو اب طالبان بن چکے تھے‘ بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی صلاحیت حاصل کر چکے تھے۔ یہ کھلواڑ آج بھی جاری ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے اس پار اس کی شدت زیادہ ہے۔ پشتونوں کی یہ تحریک اس کا ردعمل ہو سکتی ہے۔
ماضی کے در اندازوں کی طرح اس خطے میں بھی جنگ اور دہشت گردی مسلط کی گئی تھی۔ دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ لیکن اگر اس جنگ میں سب سے زیادہ کوئی برباد ہوا ہے اور ہو رہا ہے تو وہ یہاں کی محروم اور استحصال زدہ خلق ہے۔ جہاں بھی سامراجی ہوں‘ مرتے محروم ہی ہیں، گھروندے غریبوں کے ہی برباد ہوتے ہیں۔ مائیں اور بہنیں انہی کی اجڑتی ہیں، بچے انہی کے تباہ حال ہوتے ہیں اور آگ اور خون کی اس ہولی میں یہی لہولہان ہوتے ہیں۔ یہ سارا کھیل رچانے والوں کو کچھ نہی ہوتا۔ مسلح کارروائیوں میں ''اضافی نقصان‘‘ (Collateral Damage) جیسی لفاظی بہت استعمال کی جاتی ہے جس کو عمومی طور پر ثانوی سمجھ کر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کے عام باسیوں کی زندگیوں، گھروندوں، دیہاتوں اور نسلوں کی بربادی‘ یہی 'اضافی نقصان‘ ہوتا ہے۔ پہلے 'افغان جنگ‘ میں تقریباً 40 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے‘ پھر پچھلے چند سالوں میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشنوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لاکھوں افراد اجڑ کر ''اندرونی مہاجرین‘‘ یعنی آئی ڈی پیز (Internally Displaced People ) بنے۔ ان میں سے زیادہ تر کی واپسی ہو چکی ہے اور جو باقی ہیں ان کی واپسی کا کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن آئی ڈی پیز کا معاملہ محض پاکستان تک محدود نہیں اور ان اجڑے ہوئے افراد کو بسانے کے لئے نہ تو اس نظام زر کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی سنجیدہ جذبہ اور عزم ہے۔ اس لئے میرے نزدیک گرے ہوئے مکانوں اور تاراج دیہاتوں کی آباد کاری اس نظام میں تو ممکن نہیں۔ بعد ازاں ان کی بحالی کے لئے کئی تحریکیں چلائی گئیں۔ پشتون تحفظ تحریک کے قائدین ایسی ہی تحریکوں کے ہراول کارکنان ہیں۔
دہشت گردی اور جبر میں ملوث انسان کسی مخصوص قوم‘ رنگ‘ نسل سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک طبقہ ہوتا ہے جس کے پاس بے پناہ وسائل اور دولت ہوتی ہے۔ ان کو کئی ذرائع سے وسائل اور دولت ملتی ہے۔ اسی لئے وہ پکڑے نہیں جاتے۔ حملوں میں مارے جانے والوں میں سے یہ محض ایک یا دو فیصد ہوتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں جو تضحیک عام لوگوں کی ہوتی ہے اس کا نشانہ صرف غریب ہی بنتے ہیں۔ میرے خیال میں پشتون تحفظ تحریک نے کمال جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ بلوچستان سے لے کر سوات تک جلسے اور دھرنے کر رہے ہیں۔ یہ ظاہری طور پر پشتونوں کی ہی تحریک دکھائی دیتی ہے‘ لیکن اس تحریک کے سرخیل کارکنان اس پورے خطے کی تمام مظلوم قومیتوں اور طبقات کو یکجا کرنے کا عزم اور ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔ جہاں امریکی سامراجی اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے وہاں دوسرے بہت سے ''ہمدرد‘‘ بھی اپنی دکانیں سجا لیں گے۔ لیکن اگر تحریک میں ترقی پسندانہ اور انقلابی نظریات کے حامل قائدین اپنے ارادے اور جدوجہد پر مضبوطی سے قائم رہے تو یہ تحریک پھیل کر پورے خطے میں ظلم اور زبردستی کے خلاف ایک عوامی ابھار بن سکتی ہے۔ اس تحریک کے قائدین کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ لیکن جب یہاں کے محنت کش اپنے خلاف جرائم کا حساب لیں گے تو شاید ان مزاحمت کرنے والوں کو بخش دیں گے۔
جواں لہو کی پُراسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پر کتنے ہاتھ پڑے
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی