"DLK" (space) message & send to 7575

بھگت سنگھ: آج بھی مشعلِ راہ

23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو لاہور سینٹرل جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ان کی لاشوں کو جلایا گیا اور ان کے ٹکڑوں سے بھری بوریوں کو میلوں دور ستلج میں بہا دیا گیا۔ ان جانباز انقلابیوں کی جائے قتل پر کوئی یادگار‘ کوئی تختی تک نہیں۔ لیکن ان کے انقلاب کا پیغام آج بھی زندہ و جاوید ہے۔ آج نو دہائیوں بعد بھی کامریڈ بھگت سنگھ کی انقلابی جدوجہد جنوبی ایشیاء اور دوسرے خطوں کے کروڑوں نوجوانوں اور غریبوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ 1920ء کی پُرشور دہائی میں بھگت سنگھ کی انقلابی جدوجہد قومی آزادی کی تحریک کے بورژوا قائدین کے لیے خطرہ بن چکی تھی۔ اس کی عوامی مقبولیت انتہا پر تھی۔ اس وقت انٹیلی جنس بیورو کے انگریز ڈائریکٹر سر ہوریس ولیم سن نے بھگت سنگھ کی سزائے موت کے کئی برسوں بعد یہ تحریر کیا کہ ''ہر شہر اور قصبے میں اس (بھگت سنگھ) کی تصویر فروخت ہو رہی تھی اور کچھ وقت کے لیے تو اس کی مقبولیت مسٹر گاندھی کے مقابلے پر تھی‘‘۔
وائسرائے ہند لارڈ اروِن کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد کے حکم میں گاندھی کی خاموش حمایت شامل تھی۔ اس کی موت کے بعد گاندھی نے اپنے روایتی مکارانہ اور منافقانہ انداز میں کہا کہ ''یقینا حکومت کو انہیں پھانسی دینے کا حق تھا لیکن کچھ حقوق کا فائدہ انہیں استعمال نہ کرنے میں ہی ہوتا ہے‘‘۔ گاندھی اور وائسرائے نے 5 مارچ 1931ء کو گاندھی اروِن معاہدے پر دستخط کیے، اس کے باوجود چند روز بعد ہی بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو پھانسی دیدی گئی۔ سارا بر صغیر سوگوار تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے خبر شائع کی ''یو پی کے شہر کانپور میں دہشت کا راج ہے‘ کراچی کے مضافات میں نوجوانوںکا گاندھی پر حملہ‘ بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کی پھانسی پر ہندوستانی انتہا پسندوں کا ایک جواب تھا‘‘۔
تقسیم بنگال اور ظالمانہ 'لینڈ کالونائزیشن ایکٹ‘ کے خلاف 1907ء میں پنجاب سیاسی تلاطم کی لپیٹ میں تھا اور لائل پور اس بغاوت کا مرکز تھا۔ اس برس28 ستمبر کو اسی ضلع کے گاؤں 'بھاگاں والا‘ میں بھگت سنگھ نے جنم لیا۔ لاہور میں خالصہ ہائی سکول کی بجائے وہ دیا آنند اینگلو ویدک ہائی سکول میں داخل ہوا۔ 14 اپریل 1919ء کو بارہ سالہ بھگت سنگھ امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے چند گھنٹوں بعد وہاں موجود تھا جہاں جنرل ڈائر کے حکم پر تین اطراف سے دیواروں میںگھرے نہتے افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ بھگت سنگھ نے وہاں خون سے بھرے کیچڑ کو اٹھا کر ایک شیشی میں سنبھال لیا۔ بھگت سنگھ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے بدظن ہو چکا تھاکیونکہ 1922ء میں گاندھی نے اس جواز پر انگریزوں کے خلاف تحریکِ عدم تعاون کو ختم کر دیا کہ ہندوستانی فوجی اپنے انگریز افسروں کی نافرمانی کرتے ہوئے نہتے ہندوستانی مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر رہے ہیں۔
1923ء میں وہ نیشنل کالج لاہور میں داخل ہوا جہاں اس کی سیاسی اور انقلابی تربیت میں اہم پیشرفت ہوئی۔ وہ ماضی کی برصغیرمیں چلنے والی انقلابی تحریکوں کے مطالعے سے بہت متاثر ہوا۔ 1872ء کی 'کوکا تحریک‘ 1914-15ء میں غدر پارٹی کی زیر زمین مسلح جدوجہد اور 1920ء کی دہائی کی ببر اکالی بغاوت نے اس کے خیالات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ غدر پارٹی کا مرکزی رہنما 'کرتار سنگھ سرابھا‘ اس کا رول ماڈل بن گیا۔
1923-24ء میں بھگت سنگھ ایچ آر اے (ہندوستان ریولوشنری ایسوسی ایشن /آرمی) میں شامل ہو گیا۔ انقلابی تنظیم کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے 9 اگست 1925ء کو ایچ آر اے نے یو پی کے قصبے 'کاکوری‘ کے قریب ریل 'لوٹ‘ لی۔ بھگت سنگھ اس میں براہ راست شریک نہیں تھا۔ چندر شیکھر آزاد کے سوا ایچ آر اے کے تمام متحرک کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھگت سنگھ کاکوری کیس کی کارروائی میں امرتسر سے شائع ہونے والے اکالی اخبار کے صحافی کے طور پر جایا کرتا تھا۔ دسمبر1927ء میں چار ملزمان رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، ٹھاکر روشن سنگھ اور راجندر ناتھ لہیری کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ بھگت سنگھ کی زندگی کا اہم موڑ تھا۔ اس کی بڑھتی ہوئی جدوجہد اور نوجوانوں پر اثر و رسوخ کی بنا پر اسے پہلی مرتبہ مئی1927ء میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر اکتوبر 1926ء میں لاہور میں بم پھوڑنے کا الزام عائد کیا گیا۔1928ء میں ایچ آر اے کا نام ایچ ایس آر اے (ہندوستان سوشلسٹ ریولوشنری آرمی) کرنے میں بھگت سنگھ کا بنیادی کردار تھا۔
نومبر 1928ء میں سائمن کمیشن کے خلاف ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں پولیس تشدد نے تحریک آزادی کے رہنما لالہ لاجپت رائے کی جان لے لی۔ ایچ ایس آر اے نے بدلے کی ٹھانی۔ 17 دسمبر 1928ء کو بھگت سنگھ، شیوا رام راج گرو، سکھ دیو تھاپر اور چندر شیکھر آزاد نے اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ پولیس جان سونڈرز کو قتل کر دیا اور لاہور سے فرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے۔ 15 اپریل 1929ء کو بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اور 21 مزید افراد گرفتار کر لیے گئے اور ان پر سونڈرز کے قتل، 1929ء میں اسمبلی میں بم پھوڑنے اور بم بنانے کے الزامات عائد کیے گئے۔
اسیری کے دوران بھگت سنگھ اور ساتھیوںنے احتجاج اور انقلابات کا مطالعہ جاری رکھا۔ خاص طور پر روس کے بالشویک انقلاب نے انہیں بہت متاثر کیا۔ بھگت سنگھ نے لکھا ''میں نے انارکسٹ لیڈر باکونن، کمیونزم کے بانی مارکس کی کچھ تحاریر، لینن، ٹراٹسکی اور دوسروں کا لکھا بہت کچھ پڑھا ہے، جو اپنے ملک میںانقلاب لانے میں کامیاب رہے ہیں‘‘۔ (میں خدا کو کیوں نہیں مانتا، 1930ء)۔
انقلاب کے بارے ان کے نظریات اب یکسر بدل چکے تھے۔ 2 فروری1931ء کو ''نوجوان سیاسی کارکنوں کو پیغام‘‘ میں وہ لکھتا ہے ''انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہمارا پہلا مقصد طاقت کا حصول ہے۔ درحقیقت ریاست اور حکومتی مشینری، حکمران طبقے کے ہتھیار ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمیں اس ہتھیار کو چھین کر اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے جو کہ مارکسی بنیادوں پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر ہے۔ اور اسی مقصد کے تحت ہم حکومتی مشینری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی نظریاتی تربیت بھی کرنی ہے جو کہ جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک ہو کر بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے... اگر آپ کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں میں آنے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں: جس انقلاب کے لئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں اس سے انہیں کیا ملے گا؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر انڈین گورنمنٹ کا سربراہ لارڈ ریڈنگ ہو یا سر پرشوتم داس ٹھاکر؟ اگر لارڈ اروِن کی جگہ سر تیج بہادر سپرو آ جائے تو کسان کو کیا فرق پڑتا ہے؟ قومی بنیادوں پر ان کے پاس جانا بے سود ہے۔ آپ انہیں اپنے 'مقصد‘ کے لیے استعمال نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گا کہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کے لئے ہے۔ پرولتاریہ کے لئے پرولتاری انقلاب... ہمیں لینن کے الفاظ میں ''پیشہ ور انقلابی‘‘ درکار ہیں‘‘۔
6 جون 1929ء کو دہلی عدالت میں ان کا بیان 'انسانیت کی سوشلسٹ نجات‘ ان کے بھرپور اور پرجوش یقین کی غمازی کرتا ہے۔ بھگت سنگھ اور بٹو کیشور دت نے کہا ''اگر بروقت بچایا نہ گیا تو تہذیب کا سارا ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ اس لیے ایک ریڈیکل تبدیلی لازم ہو چکی ہے اور اسے سمجھنے والوں کا فرض ہے کہ سماج کو سوشلسٹ بنیادوں پر نئے سرے سے منظم کریں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اور انسان کے ہاتھوں انسان اور ایک قوم کے ہاتھوں دوسری قوم کا استحصال ختم نہیں کیا جاتا‘ انسانیت پر منڈلاتی اذیتیں اور بربادیاں نہیں ٹل سکتیں۔ جنگ کے خاتمے اور عالمی امن کی تمام گفتگو ننگی منافقت ہے‘‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں