چالیس سال پہلے 27 اپریل 1978ء کی شام ریڈیو کابل سے خبریں نشر ہو رہی تھیں کہ 'خلق پارٹی‘ نے دائود حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے اور انقلاب آگے بڑھ رہا ہے۔ 'خلق‘ دراصل پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کا زیادہ ریڈیکل دھڑا تھا۔ افغان فوج میں خلق دھڑے کے ہمدردوں نے ہی اس وقت کے افغان صدر سردار محمد دائود کے محل پر بمباری کی تھی جو خود پانچ سال پہلے 1973ء میں ایک کُو کے ذریعے اپنے کزن ظاہر شاہ کو ہٹا کر اقتدار میں آیا تھا۔
اس بمباری اور انقلابی سرکشی سے چند دن پہلے 17 اپریل 1978ء کو پی ڈی پی اے کے رہنما میر اکبر خیبر کا قتل ہوا تھا۔ خلق پارٹی کے رہنما نور محمد ترہ کئی نے دائود حکومت کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ عام تاثر بھی یہی تھا۔ میر اکبر خیبر کا جنازہ حکومت کے خلاف ایک بڑے مظاہرے میں بدل گیا تھا۔ اس سے دائود حکومت لرز گئی تھی اور اس نے پی ڈی پی اے کو کچلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارٹی کی تقریباً پوری قیادت کو گرفتار کرکے کابل کے پُلِ چرخی جیل میں قید کر دیا گیا تھا۔ قیادت کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ تاہم حفیظ اللہ امین، جو گھر میں نظر بند تھا، پہلے ہی فوج اور ایئر فورس میں پارٹی کے ہمدردوں کو سرکشی کے احکامات پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
27 اپریل کو فوج میں موجود انقلابیوں نے اہم سرکاری عمارات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ آدھی رات کو افغان ایئر فورس نے صدارتی محل پر حملے تیز کر دیئے اور جلد ہی نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں تشکیل کردہ 'انقلابی کونسل‘ نے طاقت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اگلی صبح اعلان ہوا کہ انقلابیوں نے کابل سمیت ملک کے بڑے حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاریخ میں 'ثور انقلاب‘ کے نام سے جانی جانے والی یہ سرکشی جدید افغانستان کی تاریخ کا سب سے ترقی پسندانہ اقدام تھا۔ سامراجی قوتوں اور ان کی علاقائی حواری ریاستوں کے مورخین اور دانشور اِس انقلاب کو محض ایک فوجی بغاوت قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن جون 1978ء کو نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران افغانستان کے وزیر خارجہ اور اُس وقت پی ڈی پی اے کے پولٹ بیورو کے ممبر حفیظ اللہ امین نے واضح کیا تھا کہ ''یہ کُو (فوجی بغاوت) نہیں بلکہ عوامی منشا پر مبنی انقلاب تھا۔‘‘
اگرچہ ثور انقلاب کئی داخلی کمزوریوں کا شکار تھا اور مارکسی نقطۂ نظر سے کوئی کلاسیکی پرولتاری انقلاب بھی نہیں تھا لیکن جنوبی ایشیا میں نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد کسی بھی واقعے نے جاگیرداری، قبائلی پسماندگی، مذہبی جبر، مفلوج سرمایہ داری اور سامراجی جکڑ پر ایسی ضرب نہیں لگائی تھی۔ انقلابی حکومت نے نسل در نسل پسماندگی اور جبر و استحصال کی چکی میں پسنے والے افغانستان کے عام باسیوں کے حق میں ٹھوس اقدامات شروع کئے ۔ سرکشی کے فوراً بعد انقلابی کونسل نے کئی احکامات جاری کئے۔ مثلاً حکم نمبر 6 میں کہا گیا کہ ''آج سے کسانوں پر واجب الادا تمام قرضے (جو نسلوں تک چلتے تھے) اور سود خوروں اور بڑے زمینداروں کو ملنے والی تمام آمدن منسوخ کی جاتی ہے۔‘‘ بڑے جاگیرداروں اور خوانین کی زمینوں کی چھوٹے کسانوں میں تقسیم کے منصوبے شروع کئے گئے۔ ایک اور حکم کے ذریعے خواتین کو مردوں کے برابر قرار دیا گیا اور پیسے کے بدلے نوجوان لڑکیوں کی شادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ زبردستی کی شادی یا ایسا کوئی عمل جس کے ذریعے بیوائوں کو خاندانی یا قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے دوبارہ شادی سے روکا جاتا تھا، کو جرم قرار دیا گیا۔ شادی کے لیے کم سے کم عمر لڑکی کے لیے 16 سال اور لڑکے کے لیے 18 سال مقرر کی گئی اور یوں بچپن کی شادیوں کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا۔ ایک اور حکم میں واضح کیا گیا کہ ''ہمارا اولین مقصد ملک کے سماجی اور معاشی نظام سے جاگیردارانہ اور قبل از جاگیردارانہ تعلقات کا خاتمہ ہے۔‘‘
ثور انقلاب کی دیگر ریڈیکل پالیسیوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور زرعی کوآپریٹوز کا قیام شامل تھا۔ خواندگی کے بڑے منصوبے کا اجرا کیا گیا۔ 1984ء تک ڈیڑھ ملین لوگوں نے خواندگی کے کورسز کے ذریعے تعلیم حاصل کی۔ اس سال پورے ملک میں بیس ہزار خواندگی کورس چل رہے تھے جس میں 377,000 اَفراد تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ شہری علاقوں میں 1986ء تک اور 1990ء تک پورے افغانستان سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے۔ ثور انقلاب سے پہلے تک صرف 5265 اَفراد نے خواندگی کورس مکمل کیے تھے۔
حکمران طبقات کے مؤرخین کی جانب سے ثور انقلاب پر سب سے زہریلا وار یہ کیا جاتا ہے کہ اسے افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس جھوٹ کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کی فوجوں نے 29 دسمبر 1979ء کو آمو دریا پار کرکے افغانستان میں مداخلت شروع کی۔ یعنی انقلاب کی کامیابی کے ڈیڑھ سال بعد اور افغانستان میں جہاد شروع کروانے والے امریکی 'آپریشن سائیکلون‘ کے آغاز کے پورے چھ ماہ بعد۔ یہ حقیقت بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ روسی کمانڈوز نے سب سے پہلا نشانہ افغان صدر حفیظ اللہ امین کو بنایا‘ جس کے بعد سوویت افسر شاہی کی من پسند قیادت کو اقتدار پر براجمان کروایا گیا۔ نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین جیسے انقلابی رہنما سوویت یونین سمیت افغانستان میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کے مخالف تھے۔ بعد ازاں 1988ء میں جینوا مذاکرات کے دوران میخائل گورباچوف کے خارجہ امور کے مشیر گیناڈی گراسیموف نے تسلیم کیا تھا کہ سوویت یونین کو 1978ء کی سرکشی کا کوئی پیشگی علم نہیں تھا۔
انقلاب کے قائد اور خلق دھڑے کے روح رواں نور محمد ترہ کئی مارکسی نقطہ نظر کے زیادہ قریب تھے۔ یہ حقیقت ان کی تقریر سے واضح ہوتی ہے جو انہوں نے ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 27 اَپریل 1979ء کو کی: ''انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے ہم وطنوں، بہادر سپاہیوں، پشتون اور بلوچ بھائیوں، ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے محنت کشوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ یہ انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور سپاہیوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوم عوام کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب جسے مسلح سپاہیوں نے خلق پارٹی کی قیادت میں برپا کیا ہے پوری دنیا کے محنت کشوں کی کامیابی اور فتح ہے۔ 1917ء کا عظیم اکتوبر انقلاب، جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا تھا، ہمارے اِس انقلاب کے لیے رہنمائی اور جذبے کا باعث بنا ہے جس نے اب پورے سیارے کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
خلق دھڑے کے برعکس 'پرچم‘ کے نام سے جانا جانے والا پارٹی کا دوسرا دھڑا سوویت افسر شاہی کے زیادہ قریب تھا۔ یوں انقلابی حکومت میں نظریاتی اختلاف اور دھڑے بندی نے بحران کو جنم دیا۔ نور محمد ترہ کئی اسی داخلی چپقلش میں مارے گئے۔ بعد میں حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کے بعد سوویت افسر شاہی نے ببرک کارمل کو اقتدار دیا۔ دوسری طرف امریکی سامراج اور مقامی سرمایہ دارانہ ریاستیں خوفزدہ تھیں کہ ثور انقلاب کی حاصلات پورے خطے میں انقلابی بغاوتوں کو بھڑکا سکتی ہیں۔ چنانچہ اس کے خلاف بڑے پیمانے پر جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ لیکن پی ڈی پی اے کی حکومت روسی فوجوں کے انخلا کے چار سال بعد تک بھی قائم تھی۔ 1992ء میں اندرونی غداریوں کی وجہ سے ہی یہ حکومت گری۔ منشیات کے کالے دھن پر پلنے والے گروہوں کی آپسی لڑائیوں میں بعد ازاں پورا افغانستان تاراج ہو گیا۔ امریکی سامراج کی تخلیق کردہ وہی بنیاد پرستی آج اِس خطے کے علاوہ مشرق وسطیٰ کو بھی برباد کر رہی ہے۔ لیکن ثور انقلاب آج بھی اِن بربادیوں سے نجات کی منزل کو واضح کرتا ہے اور نئی نسل کے لئے بہت سے اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔