"DLK" (space) message & send to 7575

دھنوانوں کے لیے فکسڈ منشور

آخر کار خان صاحب نے اپنے متضاد نظریات اور سرمایہ دارانہ انتخابی وعدوں کا پروگرام پیش کر ہی ڈالا۔ پہلے سو دنوں کے دکھائے گئے خوابوں کو وقت تو کچھ نہ کچھ ثابت کرے گا ہی لیکن موجودہ نظام اور اس کے تناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ تعبیریں تو پیش کی جا سکتی ہیں۔ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں جس ''شیڈو کیبنٹ‘‘ کی شخصیات کے ذریعے یہ پروگرام پیش کروایا اس سے ان کی آگے والی کابینہ کی وزارتوں کی تقسیم کا اظہار ملتا ہے۔ ان شعبہ جات کے ماہرین نے اپنی اپنی مہارت کے مطابق پروگرام پیش کیا۔ ریاست اور مملکت کے ڈھانچوں اور سیاسی امور پر شاہ محمود قریشی صاحب کی تجاویز کی روح کے مطابق خیبر پختونخوا اور فاٹا کے ادغام کا عمل حالیہ حکومت پہلے ہی کر جائے گی حالانکہ فاٹا کے ادغام کا جس میٹنگ میں فیصلہ ہوا‘ وہاں موجود شعبوں کے سربراہان سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ فیصلے کن احکامات سے اور کن سٹریٹیجیکل اور سیاسی و خارجہ پالیسی کے تحت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا فیصلہ سرائیکی جاگیرداروں کے اس دھڑے کی خواہشات کے مطابق ہوا جو حال ہی میں نواز لیگ سے بھگوڑے ہو کر ملک میں جاری پلان کے مطابق تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ اقتدار کی مزید آسامیاں ان کو درکار ہیں کیونکہ مشترکہ پنجاب میں اقتدار کی دوڑ میں پہلے ہی بہت رش لگا ہوا ہے۔ بلوچستان کے ناراض لیڈروں سے صلح کرنے اور انہیں منانے کا ہر حکومتی دعویٰ شاہ صاحب نے بھی دہرایا ہے۔ ویسے ان کے ہوم منسٹری کے شعبے میں ہونے کی بنیادی وجہ ان کا جاگیردارانہ اور پیری فقیری کا پس منظر ہے۔ ان کے مرید جو ان کے آبائواجداد کے مزاروں پر روزانہ تقریباً کروڑوں کی سلامی دیتے ہیں اور ان کے خاندان کو انگریزوں کے زمانے سے جو لاکھوں ایکڑ زمین ملی ہوئی ہے‘ وہی دراصل انہیں مختلف علاقوں میں سیاسی جوڑ توڑ کی حیثیت اور صلاحیت فراہم کرتی ہے۔
اقتصادی امور تو اسد عمر صاحب ہی نے طے کرنے تھے۔ آخر وہ سامراجی کارپوریٹ سرمائے کی اجارہ داریوں کے فعال کارندے رہے ہیں۔ پہلے عالمی طور پر ایک وسیع کارپوریٹ بینک میں وہ مالیاتی امور میں اعلیٰ ملازمت پر فائز تھے۔ پھر انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی تیل اور کیمیکلز کی اجارہ داری میں پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کام کیا۔ اس کے بعد ایک اور سامراجی اجارہ داری کے 2004ء تک چیف ایگزیکٹو رہے۔ وہ مالیاتی سرمائے کو مجتمع کرنے اور اجارہ داریوں کے لئے مارکیٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ گویا سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لئے سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی سرمایہ دار طبقے کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ان سے بہتر معیشت دان عمران خان صاحب شاید پیش ہی نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے پہلے تو اپنے اقتدار کے دوران ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ ملازمتیں کس شعبے میں دی جائیں گی‘ اس کا نہیں بتایا۔ اگر سرکاری شعبے میں دینی ہیں تو پھر یا تو بڑے پیمانے پر نیشنلائزیشن کرنی پڑے گی یا پھر حکومت کو بہت بڑے پراجیکٹ لگانے ہوں گے اور وہ بھی پرانی طرز پر کیونکہ نئی ٹیکنالوجی کے جدید پراجیکٹس میں مزدوروں اور ملازمتوں کی گنجائش بہت قلیل ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر ایسے پراجیکٹ لگانے ہیں جو اتنی تعداد میں ملازمتیں دیں تو حکومت کے پاس اتنے پیسے اور وسائل تو ہیں نہیں۔ یعنی پھر صرف قرضوں کا ہی ذریعہ بچے گا۔ لیکن ایک کروڑ ملازمتوں کے لئے لگائے جانے والے پراجیکٹوں کی خاطر جو قرضہ درکار ہو گا وہ ملک کے 70 سال میں لیے جانے والے قرضہ جات کے کم از کم دو گنا ہو گا۔ اس کی ادائیگی کہاں سے ہو گی اور آخری تجزیے میں اس نظام زر میں تو پورا ملک گروی رکھنا پڑے گا۔ قرضہ دینے والے سامراجی و مقامی ساہوکاروں کی ہوس پھر بھی پوری نہیں ہو گی۔ اسی طرح نجی شعبے کے ذریعے جو 50 لاکھ نئے مکانوں کی تعمیر کا پروگرام دیا گیا ہے‘ وہ تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا پرائیویٹ اور دیگر اداروں کی شراکت میں چلنے والا شعبہ ریل اسٹیٹ ہی ہے۔ ہائوسنگ کالونیوں کی بھرمار ہو رہی ہے‘ لیکن عام انسان چھت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ کچی آبادیاں طاعون کی طرح پھیلتی جا رہی ہیں۔ نجی شعبہ ایسی سرمایہ کاری کیسے کرے گا جس سے عوام کی بھلائی کے لئے روزگار فراہم ہو سکے بلکہ یہ شعبہ تو کم سے کم لاگت سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت خصوصی طور پر صنعتی شعبوں میں مزید بڑی سرمایہ کاری کی مندی کا دور چل رہا ہے۔ اجارہ داریوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں نے کھربوں ڈالر کیش بڑے بڑے بینکوں کے لاکروں میں رکھے ہوئے ہیں۔ یا پھر بیش قیمت نوادرات خرید کر ان کو فولادی تجوریوں میں اپنے تہہ خانوں میں چھپا رکھا ہے تاکہ ''سرمایہ‘‘ محفوظ رہے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ اب صنعتی اور پیداواری سرمایہ کاری میں سرمایہ داروں کو درکار شرح منافع کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کی بنیادی اقتصادی پالیسی بھی ''بزنس فرینڈلی‘‘ تھی۔ اسد عمر صاحب نے بھی اپنی معاشی پالیسی کو یہی نام دیا ہے۔ انہوں نے تو ''بزنس لیڈروں کی کونسل‘‘ بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یعنی سرمایہ دار براہ راست معاشی پالیسیاں بنائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ محنت کش دشمن پالیسیاں دینے کا اعلان ہے۔ کیونکہ اس نظام کے بنیادی تضاد‘ سرمایہ اور محنت‘ میں ایک کا فائدہ دوسرے کی بربادی کا موجب بنتا ہے۔ لیکن اسد صاحب نے مزدوروں کی مستقل ملازمتوں کے خاتمے اور ٹھیکیداری نظام کے بڑھتے ہوئے اجرا کے خلاف کوئی امید بھی محنت کشوں کو نہیں دی۔ یہاں اب بہت کم ادارے رہ گئے ہیں جن میں مزدوروں کے پاس مستقل ملازمتیں یا دوسرے حقوق باقی بچے ہوں۔
اسی طرح پرویز خٹک‘ جو اب مرکزی کابینہ میں بھی اہم وزارت کے خواہاں لگتے ہیں ‘ نے تعلیم اور علاج کے شعبے میں اہم ''تبدیلیاں‘‘ لانے کا اعلان کیا۔ اگر ان کی پختونخوا میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکاری اور نجی شعبے کے ملاپ سے پورا پاکستان چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نجی شعبے نے جس بے دردی سے بیماروں کو شفا اور بچوں کو علم سے محروم اور مسترد کر دیا ہے‘ اس سے یہاں شرح خواندگی اکیسویں صدی میں بھی کم ہی ہوئی ہے۔ بیمار ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ زخم درد اور بیماری کا علاج نہیں بیوپار ہوتا ہے۔ یہی پالیسی خان صاحب کی حکومت بھی جاری رکھے گی۔ جس سے ان شعبوں میں علاج اور تعلیم کی دسترس سے مزید محنت کش اور غریب عوام بیگانے ہو جائیں گے۔ صرف خیرات میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔BISP میں 54 لاکھ افراد سے تعداد بڑھا کر 80 لاکھ کرنے کا ہدف پیش کیا گیا ہے۔ جس ملک میں 78 فیصد آبادی یعنی تقریباً 18 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہوں وہاں 80 لاکھ لوگوں کے لیے 5 ہزار ماہانہ خیرات کی پالیسی اگر المناک نہیں تو مضحکہ خیز ضرور ہے۔
طویل عرصے سے قومی سلامتی پر ریاستی اداروں کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ کام کرنے والی اور خارجہ امور میں سرکاری مہارت رکھنے والی شیریں مزاری صاحبہ (جو وزیر خارجہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہیں) نے جو پالیسی دی ہے‘ وہ 70 سال سے جاری ہے۔ وہی ترجیحات‘ وہی مقاصد و مفادات اور اُنہی کا اختیار! شیریں صاحبہ نے تو ساری زندگی انہی کی پالیسیاں بنانے والے شعبوں میں مہارت حاصل کی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کے درمیانے طبقے کی اس پارٹی نے اس 'سو روزہ پروگرام‘ کا اعلان کر کے بالا دست طبقے اور عالمی سامراجی قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ خان صاحب پر وہ پورا اعتماد اور اعتبار کر سکتے ہیں۔ محنت کشوں اور غریبوں کے لئے اس میںکچھ نہیں ہے۔ باقی پارٹیوں کا بھی یہی منشور ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ''مزدوروں کی نجات کا فریضہ صرف مزدور ہی ادا کر سکتے ہیں‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اس نظام سے ان کو اب کچھ ملے گا نہیں۔ ان کو اپنا حق چھیننا ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں