یکم جولائی کی رات کو میکسیکو سٹی کے تاریخی زوکالو سکوائر میں لوپیز اوبراڈور کے حامیوں کا ہجوم تھا۔ روایتی موسیقی پر جھومتے ہوئے وہ انتخابات میں فتح یاب اپنے قائد کے منتظر تھے۔ امید اور رجائیت سے سرشار عوام کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور غربت کی سیاہ رات کے خاتمے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ قومی تعمیر نو کی تحریک (مورینو) کا لوپیز اوبراڈور میکسیکو کا اگلا صدر منتخب ہو چکا ہے۔ یہ میکسیکو کی حالیہ تاریخ کی سب سے پُر تشدد انتخابی مہم تھی۔ ستمبر2017ء سے اب تک 130 سیاسی شخصیات قتل ہو چکی ہیں۔ اوبراڈور کا انتخابی اتحاد متوقع طور پر ایوان زیریں کی ساٹھ فیصد اور سینیٹ کی 128 میں سے 70 نشستیں جیت کر دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔
حکمران طبقات کا احترام حاصل کرنے کی خاطر لوپیز اوبراڈور کی جانب سے ہر روز پیش کی جانے والی رعایتوں کے باوجود اس کی فتح نے عوام میں تبدیلی کی ایک نئی امید جگائی ہے۔ دائیں بازو کی جانب سے اوبراڈور پر مسلسل حملوں سے اسے مزید تقویت مل رہی ہے۔ ملک کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی کا نصف غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہی لوگ اوبراڈور کے حامی ہیں اور اس کی صدارت سے ٹھوس مادی حاصلات کی توقع کر رہے ہیں۔
اوبراڈور نے کہا ہے کہ وہ صدارتی دفتر کو پُرتعیش محل سے نکال کر سے زوکالو سکوائر میں منتقل کر دے گا۔ 2006ء میں اسی سکوائر میں لوپیز اوبراڈور کے لاکھوں حامیوں نے کئی مہینوں تک صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ یکم دسمبر کو اقتدار سنبھالتے ہی بزرگوں کی پینشن دگنی کر دے گا۔ اس نے اپنی تنخواہ میں کمی اور نچلی سطح کے حکومتی اہلکاروں کی تنخواہ میں اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اس نے یونیورسٹی طلبا کو گرانٹس اور تعمیرات عامہ کے منصوبے شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ جس سے 23 لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔
1980ء کی دہائی میں لوپیز اوبراڈور سرکاری تیل کمپنی پیمکس کے ساتھ مذاکرات میں ریاست تاباسکو کا نمائندہ تھا اور محنت کشوں کی بہتر اجرتوں اور سہولیات کی جدوجہد کر رہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام بھی عظیم انقلابی ارنیسٹو چی گویرا کی یاد میں ہیسوس ارنیسٹو رکھا ہے۔ 1991ء میں اس نے آزاد اور غیر جانبدار انتخابات کے مطالبے میں تاباسکو سے میکسیکو سٹی تک چھ ہفتے کا مارچ کیا تھا۔ 1995ء میں اس نے تاباسکو میں بجلی کے مہنگے نرخوں کے خلاف بل ادا نہ کرنے کی مہم چلائی، یہ اس تحر یک کا آغاز تھا جو آج بھی جاری ہے۔ 1996ء میں اس نے تیل کی تنصیبات کی ناکہ بندی کی اور مسلسل آلودگی سے مچھیروں اور کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کا مطالبہ کیا۔ پیمکس کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران پولیس کا پتھر اس کے چہرے پر لگا جس سے وہ لہولہان ہو گیا تھا۔
لوپیز کاروباری اشرافیہ اور کارپوریٹ سیکٹر کی حمایت کے بغیر منتخب ہونے والا میکسیکو کا پہلا صدر ہے۔ اس پر نافٹا (شمالی امریکہ کا آزادانہ تجارتی معاہدہ) کو ہر قیمت پر بچانے کے لیے قدرے کم دبائو ہو گا۔ انتخابی مہم کی آخری تقریر میں اس نے کہا کہ اس کی حکومت '' پُر امن لیکن بنیادی تبدیلی لائے گی... ہم نے یہ ساری جدوجہد محض دکھاوے کے اقدامات یا زبانی جمع خرچ کے لیے نہیں کی‘‘۔ اوبراڈور خود کو 1934ء سے1940ء تک میکسیکو کے صدر ' لارزو کاردیناس دل ریو‘ کا پیروکار کہتا ہے جس نے نیشنلائزیشن، زرعی اصلاحات اور ٹراٹسکی کو پناہ دی تھی۔
میکسیکو بزنس کونسل ملک کے ساٹھ امیر ترین افراد کا گروپ ہے اور ہمیشہ سے اوبراڈور کی ''غریب نواز‘‘ پالیسیوں کا مخالف رہا ہے۔ گروپ کے سرکردہ رکن اور سابق وزیر خارجہ ہورگے کاستانیدا کے مطابق اوبراڈور ''پرانی طرز کی قوم پرستی ، معیشت پر ریاستی کنٹرول ، محصولاتی تحفظات اور وسیع سبسڈیز پر یقین رکھتا ہے... وہ میکسیکو کے لیے درست متبادل نہیں ہے۔ وہ تھکا ہوا، بوڑھا اور متروک ہو چکا ہے‘ وہ پاگلوں میں گھرا ہوا ہے اور پرانے نظریات کا مالک ہے... لوگوں کے اس پر یقین اور جلسوں میں جانے کی وجہ اس کی مدلل، ذہانت پر مبنی اور پُر کشش گفتگو نہیں ہے۔ لوگ اس کے پیچھے ہیں کیونکہ وہ ایک نظام کے خاتمے کا علمبردار ہے‘‘۔ لوپیز کو بوڑھا کہنے والا کاستانیدا 64 برس کا اور اس کا ہم عمر ہے۔
ریڈیکل اور بائیں بازو کی بیان بازی کے باوجود اوبراڈور کوئی سوشلسٹ یا مارکسسٹ نہیں ہے۔ طبقاتی پوزیشن کو نرم کر کے وہ درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ دو انتخابات میں ناکامی کے بعد کارپوریٹ میڈیا کے حملے اس پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ بورژوازی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اس نے کابینہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کو نامزد کیا‘ اور کاروباری اشرافیہ کو '' ضبطگی اور نیشنلائزیشن‘‘ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ان یقین دہانیوں کے باوجود بورژوازی اس پر اعتبار نہیں کر رہی۔ کاروباری حلقوں اور سرمایہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اس کی حکومت میں توانائی کی صنعت کی نجکاری واپس ہو گی اور سماجی پروگراموں میں اضافے سے ملک مقروض ہو گا۔ لوپیز اوبراڈور کے مطابق ان منصوبوں کے لیے خسارے کی ضرورت نہیں اور بد عنوانی کو روک کر بچنے والے پیسے ان میں لگائے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ دارنہ ماہرینِ معیشت قائل نہیں ہیں۔
بدلتی ہوئی ان پوزیشنوں سے اس کچھ بائیں بازو کے حامی نالاں ہوئے ہیں۔ پرانے دوست جیبر کے مطابق '' وہ بدل چکا ہے۔ اب وہ بورژوا سیاست دانوں اور کاروباری ایگزیکٹیوز کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ انقلاب کی باتیں ختم ہو چکی ہیں‘‘۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران وہ انقلاب کا ذکر کرتا رہا ہے اگرچہ اب اس کا ماڈل کیوبا نہیں رہا۔ وہ اسے میکسیکو کی سیاسی اشرافیہ کے خلاف انقلاب قرار دیتا ہے۔ مستقبل میں بڑے چیلنج تشدد، غربت، نا برابری، استحصال اور ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
اوبراڈور حکومت کو بحران کا سامنا ہو گا کیونکہ بورژوازی اس سے مزید مطالبے کرے گی اور بلیک میل اور معاشی سبوتاژ کے ذریعے انتخابی وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے گی۔ لیکن عوام کی امیدیں اور توقعات اسے ان اصلاحات کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دبائو ڈالیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے انتہائی معمولی اصلاحات بھی نہیں کی جا سکتیں۔ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس کی ریڈیکل پالیسیاں بورژوازی اور سامراجیوں کے غیظ و غضب کو دعوت دیں گی۔ دوسری جانب یہ بیدار ہوئے عوام کی امیدوں کو پورا نہیں کر پائیں گی۔ واشنگٹن بھی اس سے بہت تنگ ہو گا۔ اوبراڈور نے وعدہ کیا ہے کہ میکسیکو کے تمام پچاس کونسلیٹ امریکہ میں قانونی مشکلات میں پھنسے تارکین وطن کو مدد فراہم کریں گے۔ لوپیز نے لکھا کہ ''ٹرمپ اور اس کے مشیر میکسیکو کے لوگوں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے ہٹلر اور نازی یہودیوں کے قتل عام سے پہلے کرتے تھے‘‘۔ یہ حیران کن نہیں ہو گا اگرایک سال کے اندر ہی امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کی حکومت کا خاتمے کے طریقے تلاش کرنے کا مشن دے دیا جائے۔
وینزویلا میں جاری بحران کی وجہ سے لوپیز اوبراڈور خود کو ہوگو شاویز سے دور کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ وینزویلا کے بحران کی وجہ شاویز کی ریڈیکل اصلاحات نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کا نا مکمل رہنا اور سرمایہ داری اور اشرافیہ کا خاتمہ نہ کرنا ہے۔ وینزویلا میں اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لوپیز اوبراڈور کو بھی یہی فیصلے کرنے ہیں اور آج میکسیکو کے سماج کے مسائل کہیں بڑے ہیں۔ میکسیکو کو ہمیشہ کے لیے بدل دینے اور غریب عوام کی محرومی اور استحصال کا خاتمہ کرنے والے صدر کے طور پر یاد رکھے جانے کے لیے اسے انقلاب کی راہ پر چلنا ہو گا، ورنہ تاریخ کی گمنامی ہی اس کا مقدر ہو گی۔