"DLK" (space) message & send to 7575

لیاری کی پیپلز پارٹی سے بیزاری

حالیہ انتخابات میں چند نشستیں ایسی بھی تھیں جن کے نتائج تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں این اے 246 لیاری کا حلقہ بھی شامل ہے۔ یہ حلقہ تقریباً 50 سال سے پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ 1970ء سے لے کر 2018ء تک کے انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ہی کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن اس مرتبہ یہاں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شکست پارٹی کے لئے نہ صرف بڑا دھچکا ہے بلکہ اس کی ساکھ کی تنزلی کی غمازی بھی کرتی ہے۔ یہاں سے کسی اور نے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی ہی کے ایک جیالے نے پارٹی چیئرمین کو شکست دی ہے ۔ عبدالشکور شاد نے آخری وقت تک پیپلز پارٹی میں رہنے کی کوشش کی۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل، عمران خان سے ملاقات سے پیشتر اس نے ٹکٹ نہیں بلکہ صرف ضلعی عہدہ مانگا تھا لیکن فریال تالپور نے نہ صرف عہدہ دینے سے انکار کر دیا بلکہ ملنے سے بھی انکار کر کے اُسے دھتکار کر پارٹی سے بے دخل کر دیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بلاول یہاں دوسرے نمبر پر بھی نہیں بلکہ تیسرے نمبر آیا ہے۔ دوسرے نمبر پر مذہبی تنظیم تحریک لبیک رہی۔ یہ پیپلزپارٹی کے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت نے ہمیشہ کی طرح اپنی اعلیٰ قیادت کے کرتوتوں کا مکمل دفاع کرتے ہوئے سارا الزام دھاندلی پر دھر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ حالیہ انتخابات میں انجینئرنگ اور سرکاری مداخلت کا الزام نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی مبصرین بھی لگا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی کے انتخابات کی طرح دھاندلی بہت مقامات پر ہوئی ہے ۔ لیکن دھاندلی کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ اس بار زیادہ تر دھاندلی انتخابات سے پیشتر ہی ہو چکی تھی۔ لیکن صرف دھاندلی کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر پارٹی لیڈروں کے اعمال اور حرکات کو چھپانے سے اب مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہاں سب سے بڑی دھاندلی تو ہر الیکشن میں پیسے اور دولت کی ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر الیکشن کمیشن تو 40 لاکھ خرچے کی اجازت دیتا ہے لیکن کروڑوں کے اخراجات عام ہیں۔ اب تو مالیاتی سرمائے کے زور پر انتخابات جیتنے کو معمول سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ تصور تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے کہ پیسے کی طاقت کے بغیر نظریات اور پروگرام کے بل بوتے پر بھی انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی ہی کی سب سے بڑی انتخابی فتح، جو اسے 1970ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی تھی، ثابت کرتی ہے پیسے کے بغیر عوامی حمایت اور طاقت کے زور پر الیکشن لڑے بھی جا سکتے ہیں اور جیتے بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی تنزلی کا آغاز بھی انہی انتخابات کے بعد ہوا تھا جب پارٹی اسی سرمایہ دارانہ سیٹ اپ میں اقتدار کا حصہ بن گئی۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جتنی قیادتیں آتی رہیں وہ پارٹی کو اس کے بنیادی سوشلسٹ نظریات اور ناقابل مصالحت طبقاتی جدوجہد کے لائحہ عمل سے دور کرتی چلی گئیں۔ سرمایہ داروں اور بڑے زمینداروں کا غلبہ ہونے لگا اور یہ دھنوان پارٹی کو اپنے سیاسی کاروبار کیلئے استعمال کرنے لگے۔ پیپلز پارٹی کو ''سٹیٹس کو‘‘ کی پارٹی بنایا جانے لگا۔ سرمایہ دارانہ نظام کو پہلے بالواسطہ اور پھر براہِ راست اور مکمل طور پر اپنا لیا گیا۔ آج اس نظریاتی تنزلی بلکہ دیوالیہ پن کی انتہا ہوچکی ہے۔ پھر پارٹی نہ تو 1970ء جیسی کوئی جیت حاصل کرسکی نہ ہی پنجاب میں حکومت بنا سکی۔ قیادت کی دولت کی ہوس عوام کی اُمنگوں کو پامال کرتی چلی گئی۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ قیادت کی ہوس اور عوام کی امنگوں کا تضاد پھٹ کر ایک تصادم کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ لیاری میں بلاول کی انتخابی مہم میں پیسے، دیوہیکل گاڑیوں اور پوسٹروں بینروں کی بھرمار تھی، پھر بھی یہ مہم نامراد رہی۔ لیکن یہ بھی غلط ہے کہ پیپلز پارٹی یہاں پی ٹی آئی اور تحریک لبیک سے ہاری ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس کے گڑھ میں شکست عام انسانوں کی بیزاری اور بغاوت نے دی ہے۔ 
کئی دہائیوں تک جہاں مختلف علاقوں میں پارٹی کی عوامی حمایت بتدریج کم ہوتی گئی وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد نے پیپلز پارٹی کی سیاسی روایت کو گلے سے لگائے رکھا۔ تمام ذلتیں برداشت کرکے بھی انہوں نے کبھی انقلابی جھلک دکھلانے والی اپنی پارٹی سے امیدیں وابستہ رکھیں۔ لیکن کب تلک؟غریب، محنت کش، بدحال لوگ دیکھ بھی رہے تھے اور سہہ بھی رہے تھے کہ کیسے بڑے بڑے پراپرٹی اور بزنس ٹائیکون پارٹی کے سندھ میں اقتدار کے ذریعے غریبوں کی زمینوں کو چھین کر ان کو اربوں میں فروخت کر کے کھرب پتی بن رہے تھے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں دوسری پارٹیاں قبضہ گیری اور بھتہ خوری کے مافیا گروہ چلا کر کالے دھن کے انبار لگا رہی تھیں وہاں پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اس کھلواڑ میں ملوث تھی۔ اس ہولناک کھلواڑ میں جو خونریزی اور قتل وغارت جاری رہی‘ لیاری اس کا مرکز بن گیا تھا۔ بڑے بڑے قاتل اور ڈکیت پیپلز پارٹی کے گاڈ فادر بنے ہوئے تھے ۔ بھتے اوپر تک جاتے تھے۔ لیکن لیاری اور ایسے دوسرے علاقوں کے عام باسیوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی۔ ایک طرف بیروزگاری اور مہنگائی نے ان کی زندگیاں عذابِ مسلسل بنا دی تھیں تو دوسری جانب ان پر گینگ وار کی قتل وغارت اور دہشت گردی کا قہر بھی نازل ہو رہا تھا۔ ایسے میں لیاری کے عوام پر پارٹی سے بے وفائی کا الزام لگانا کسی جرم سے کم نہیں ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ چالیس سال تک جو پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے کیا وہ ظلم وستم کی ایک المناک داستان ہے۔ اب بلاول غربت اور محرومی کے خاتمے کے نعرے لگا کر جو ایک کمزور سوشل ڈیموکریسی کا پروگرام پیش کررہا تھا اس میں بالخصوص نئی نسل کے لئے تو کوئی کشش نہیں تھی۔ ایسے نظام میں اصلاح کی امید دلانا ‘جو متروک ہو کر ایک ناسور بن چکا ہے‘ نہ صرف دھوکہ دہی بلکہ خودفریبی بھی ہے۔ لیکن اس اصلاح پسندی کے پیچھے اصل قیادت جو جوڑ توڑ کررہی تھی وہ اقتدار کے ذریعے مزید دولت کے حصول کی واردات کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ 
جہاں تک پی ٹی آئی کی جیت کا تعلق ہے تو یہ جماعت ایک سیاسی خلا میں عارضی ابھار ہے۔ میڈیا کے سیاسی پنڈتوں کے مطابق تو ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اس خلا کو پیپلز پارٹی نے پُر کرنا تھا۔ لیکن پارٹی کی حکومتوں نے لیاری جیسے علاقوں کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، وہاں پانی سے لے کر بجلی تک جیسی بنیادی ترین ضروریات کی جیسی قلت ہے، کراچی کو جس طرح کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ایسے میں عام لوگ اتنے بے حس اور لاغر بھی نہیں ہیں کہ کوئی آہ و بکا نہ کرتے‘ اپنے ووٹ کے ذریعے احتجاج بھی نہ کرتے۔ زرداری کو سرکاری طور پر تو بری کیا جا سکتا لیکن عوام اتنا ضرو ر سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ جہاں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا وہاں زرداری کو کیوں بری کر دیا گیا۔ ایسے میں لوگوں نے چاہے اپنے ناک بند کرکے ہی پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے ہوں لیکن فی الوقت ان کے پاس پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل بھی تو نہیں ہے۔ یوں ان نتائج کے معنی قطعاً یہ نہیں ہیں کہ تحریک انصاف کوئی عوامی روایت بن گئی ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ضیاء الحق بھی نہیں کر سکا۔ اب پیپلز پارٹی سے امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔ لیکن بائیں بازو کا کوئی دوسرا رجحان فی الوقت مروجہ سیاست کے افق پر نمودار نہیں ہوا ہے ۔ تاہم لیاری کے عوام کی یہ بغاوت اس کیفیت کی غمازی کرتی ہے کہ بائیں طرف سیاسی خلا بہت بڑھ گیا ہے۔ ایسے خلا لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں