اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ''یمن کی جنگ اب دنیا کے بد ترین انسانی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں 22 ملین سے زائد افراد، یعنی تین چوتھائی آبادی کو فوری امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ جنگ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو رہی ہے اور لاکھوں لوگ پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں جبکہ ملک میں ہیضے کی وبا پھوٹنے کے شدید خطرات ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں یمن پر 18000 فضائی حملے کیے گئے جو اس قتل عام کی شدت کے عکاس ہیں۔ سعودی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے اکثر دوہرے فضائی حملے کیے جاتے ہیں جس میں دوسرا حملہ اس وقت کیا جاتا ہے جب پہلے حملے کے بعد لوگ جائے وقوعہ کی طرف زخمیوں کی مدد کے لیے جاتے ہیں۔‘‘ مزید کہا گیا، ''اپریل 2018ء تک تقریباً 17.8 ملین لوگ غذائی قلت کا شکار تھے جبکہ 8.4 ملین لوگ قحط کے قریب ہیں۔ حفظان صحت کی سہولیات اور صاف پانی کا فقدان ہے جبکہ یمن اب بھی ہیضے کی سب سے وسیع وبا سے نبرد آزما ہے‘‘۔
نومبر 2017ء میں منظر عام پر آنے والی 'Save the Children‘ کی رپورٹ کے مطابق ہر دن 130 بچے مر رہے ہیں جبکہ 2017ء میں 50,000 بچے مر چکے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، ''یمن میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک ملین سے زائد بچے ناقص غذائیت کا شکار ہیں جبکہ ملک کی نصف آبادی غذائی قلت سے دوچار ہے۔ جنگ سے تین ملین لوگ بے گھر ہوچکے اور 22 ملین امداد کے منتظر ہیں۔‘‘
سامراجی قتل عام کی رد انقلابی جارحیت میں یمن کو پراکسی جنگوں کا ایک اکھاڑہ بنا دیا گیا ہے۔ بیرونی مداخلتوں نے اس عوامی سرکشی کو وحشیانہ فرقہ وارانہ تصادم کا رنگ دے دیا ہے۔ یمن میں ہونے والے قتل عام کو امریکی سامراج اور اس کے یورپی سامراجی گماشتوں کی مکمل عسکری حمایت اور رہنمائی حاصل ہے۔ واشنگٹن نے مغربی سامراجیوں کی مکمل تابع داری کی مزاحمت کرنے والے ممالک اور رہنمائوں کو 'حکومت کی تبدیلی‘ کی واردات کے ذریعے ہمیشہ ہدف بنایا ہے۔ خوب بربادی اور قتل عام‘ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کے بعد دیوہیکل سامراجی کارپوریٹ گدھ سامراجی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی پھیلائی بربادی کی تعمیر نو کے نام پر منافع خوری کے لیے جھپٹ پڑتے ہیں۔ یمن میں تیل کی اجارہ داریوں نے امریکی اور اسرائیلی صہیونی فوج کی زیر نگرانی ہائیڈروکاربن کے ذخائر پر قبضے کر لیے ہیں۔
عرب انقلاب کی بازگشت میں یمن کے دارالحکومت صنعا میں ہزاروں لوگوں کے مارچ نے صدر صالح سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں اضافہ ہوا اور ملک کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ یمن کی 70 فیصد آبادی کی عمریں 25 سال سے کم ہونے کی وجہ سے تحریک کی قیادت نوجوانوں کے پاس تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ یمن جیسے ملک میں با حجاب اور بغیر حجاب خواتین کی بڑی تعداد مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔ 18 مارچ کو حکومتی فورسز نے فائرنگ کی جس سے کم از کم 45 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ اس قتل عام نے حکمرانوں میں ایک پھوٹ ڈال دی۔ فرسٹ آرمڈ بریگیڈ کے کمانڈر اور صدر کے قریبی اتحادی نے بغاوت کر کے تحریک میں شمولیت کر لی۔ اپوزیشن پارٹیاں جو اب تک تحریک سے الگ تھیں‘ وہ بھی شامل ہو گئیں۔
صالح نے پہلے پہل مستعفی ہونے سے انکار کیا۔ 3 جون کے دھماکے میں وہ اپنے محل کی مسجد میں دورانِ نماز شدید زخمی ہوا۔ سعودی عرب کے ڈاکٹروں نے اس کی جان بچائی۔ 23 نومبر کو اس نے شکست قبول کرتے ہوئے عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کرنے پر اتفاق کیا‘ جس کی قیادت اس کا نائب صدر عبدالرب منصور ہادی کر رہا تھا۔ ستمبر 2014ء میں حوثیوں نے بغاوت کر دی۔ حوثی، جو اقتدار کے لیے لڑ رہے تھے، ایک معتدل شیعہ فرقہ ہیں‘ جن کی رسومات سنی مکتبہ فکر سے ملتی جلتی ہیں۔ ان کی ملیشیا نے دارالحکومت میں حکومتی عمارات پر قبضہ کیا‘ جبکہ فوج نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ ہادی عدن بھاگ گیا اور ریاض اور ابو ظہبی سے فوجی کمک کی درخواست کی۔ امریکی اور برطانوی سامراجیوں کی پشت پناہی سے خطے کے بعض ممالک نے ہادی کی جلا وطن حکومت کے نام پر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی ریاستوں، بحرین، مصر، اردن، کویت، ایریٹیریا، مراکش، سینیگال، صومالیہ اور سوڈان پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ 26 مارچ 2015ء کو عدن کے سقوط کو روکنے کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا گیا۔ کسی قسم کی مداخلت کی غیر موجودگی میں حوثی فوج جلد ہی پورے ملک پر قبضہ کرنے والی تھی۔ حوثیوں کو ایرانی ریاست کی جانب سے کسی حد تک مالی اور تربیتی امداد حاصل رہی‘ جبکہ امریکہ کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر سعودی تحفظات دور کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ نے ہی یمن کی جنگ کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔ فی الحال ملک کے شمال کا بڑا حصہ بشمول دارالحکومت صنعا اتحادی بمباریوں کی تباہ کاری کے باوجود حوثیوں کے قبضے میں ہے۔ طویل مدت میں شاید ایک عالمی امن معاہدے کے ذریعے اس بیرونی فوجی مداخلت کو بند کیا جائے‘ لیکن داخلی طور پر یمن میں ملک کے محدود ذخائر تک رسائی کے لیے مختلف گروہوں کے درمیان لڑائی کم و بیش شدت کے ساتھ جاری رہے گی۔
نصف صدی تک یمن جمہوریہ رہا اور 1990ء تک دو ریاستوں میں منقسم رہا۔ شمال میں جمال عبدالناصر سے متاثر قوم پرست قوتیں 1970ء میں ایک خونیں جنگ کے بعد غالب آ گئیں۔ جنوب میں ایک انقلابی سرکشی ہوئی جس کی قیادت عبدالفتح اسماعیل اور دوسرے جوان فوجی افسران کر رہے تھے‘ جن کا تعلق سوشلسٹ پارٹی سے تھا۔ انقلابی حکومت نے بندرگاہی شہر عدن سے برطانوی سامراجیوں کو نکال باہر کیا۔ ایک نئی ریاست پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن (PDRY) کا قیام عمل میں آیا۔ عرب دنیا میں یہ واحد سوشلسٹ ریاست تھی۔ PDRY کی قیادت نے معیشت اور زمین کے بیشتر حصوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ سب کے لیے مفت تعلیم و علاج اور دوسری اصلاحات متعارف کی گئیں۔ عورت کی ترقی میں حائل تمام روایتی رکاوٹوں کو پاش پاش کیا گیا۔ ہیلن لیکنر اپنی کتاب ''Yemen in Crisis‘‘ میں یاد کرتی ہیں، ''عام شہریوں کے لیے زندگی کافی اچھی تھی۔ روزگار اور آمدنی ایسی تھی جس سے اچھا معیار زندگی، مناسب غذا اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری ہو جایا کرتی تھیں۔‘‘ سرد جنگ کی مقابلہ بازی کے نتیجے میں سوویت یونین سے امداد آتی تھی جس سے ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ تعمیر کرنے میں مدد ملی۔ ملک سے باہر ایک ملین سے زائد کام کرنے والے یمنیوں کے ذریعے آنے والے زرمبادلہ نے بھی اس ترقیاتی کام میں مدد کی۔
تاہم اَسی کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے دو متحارب دھڑوں میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد PDRY منہدم ہو گئی۔ دونوں دھڑے اقتدار کے لیے برسر پیکار مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کی اہم وجہ قومیائی گئی معیشت کی قومی حدود میں بندش اور معیشت اور ریاست پر عوام کے جمہوری کنٹرول کا فقدان تھا۔ مشرقی جرمنی کی طرح، سرد جنگ کے اختتام پر 'کمیونسٹ‘ حکومت کے انہدام کے بعد یمن کے دوسرے سرمایہ دارانہ حصے نے قومی انضمام کی شرائط طے کیں۔ شمال میں صنعا متحدہ جمہوریہ یمن کا دارالحکومت بنا۔1978ء سے شمالی یمن کے جابر حکمران علی عبداللہ صالح متحدہ یمن کے صدر بن گئے۔ منصوبہ بند معیشت ختم ہو گئی اور آج کی برباد نیو لبرل معیشت کی حامل جمہوریہ یمن کا قیام عمل میں آیا۔
تمام تر ظلم، بھوک اور جبر سہنے کے بعد بھی یمنی عوام ہزاروں کی تعداد میں اس ہونے والی جارحیت اور ان کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے والی یورپی اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ عدن اور صنعا میں عوام پانی، روزگار اور بنیادی ضروریات زندگی کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ طبقاتی کشمکش بالکل واضح ہے۔ سرمایہ داری نے جنگوں، محرومیوں، بیماریوں اور تباہ کاریوں کے ذریعے ان کی زندگیوں میں مزید زہر گھول دیا ہے۔ حتیٰ کہ مشرقِ وسطیٰ کے سرکاری تجزیہ نگار بھی وحشت سے ایک نئے عرب بہار کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ محنت کش اور محکوم طبقات اپنی بقا اور خوشحالی کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے تاریخ کے میدان میں اتر کر 2011ء کے نامکمل انقلاب کی تکمیل کریں گے۔ یہی ان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔