"DLK" (space) message & send to 7575

ڈیموں کی تعمیر

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا میڈیا اور سرکار نے بھرپور انداز میں پرچار کیا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالتے ہی اس مہم کو حکومتی فرائض میں شامل کر لیا ہے۔ عمران خان کو چندے اکٹھے کر کے پراجیکٹ بنانے میں خاصی مہارت حاصل ہے۔ ایسے کاموں میں ان کو ایک جذباتی تسلی بھی شاید حاصل ہوتی ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا ''عوامی‘‘ چندے سے اتنا بھاری رقوم حاصل ہو سکیں گی جن سے ڈیم بنایا جا سکے؟ اس سے پیشتر نواز شریف نے بھی اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ''قرض اتار، ملک سنوارو‘‘ مہم چلائی تھی‘ جس کی ناکامی سب کے سامنے عیاں ہے۔ نواز شریف کی طرح عمران خان نے بھی اس چندے کی اپیل کا بوجھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر ہی ڈالنے کا عندیہ دیا ہے۔ سنا ہے کہ عوام میں یہ مہم کافی مقبول بھی ہوئی ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں لفظ عوام کا تعین کرنا پڑے گا اور ان کی آمدن کو پرکھنا ہو گا۔ عوام کوئی اکائی نہیں ہوتے بلکہ ان میں مختلف طبقات، قوموں، مذاہب، فرقوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔ لیکن آخری تجزیے میں عوام میں فیصلہ کن تفریق ان کے طبقے کے تعلق سے ہوتی ہے۔ یہاں ایسے پاکستانی بھی ہیں جن کی ماہوار آمدن بمشکل تین سے چھ ہزار روپے ہے اور ایسے بھی ہیں جن کی 30 سے 60 کروڑ یا اس سے زیادہ بھی ہے۔ اب یہ سبھی عوام ایک ہی پلڑے میں تولے اور پرکھے نہیں جا سکتے۔ کچھ لوگوں کا ایک سو روپیہ بھی دوسری بالا دست اور درمیانے طبقے کی اوپری پرتوں کے افراد کے ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن کمرشلائزیشن کے اس دور میں غریب محنت کش کی عظیم قربانی کے ایک سو روپے کا کہیں شمار نہیں ہو گا اور اس حاکمیت میں صرف کروڑوں اور اربوں دینے والے دھنوانوں کی ہی چرچا اور پذیرائی ہو گی‘ لیکن کم از کم دو درجن سے زیادہ ایسے افراد بھی ہیں جن میں سے کسی ایک کی دولت سے یہ پورا منصوبہ ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب جن عوام کی پذیرائی کی جا رہی ہے اور اس سکیم کے لئے ان کے جوش و خروش کا بہت شور مچایا جا رہا ہے‘ وہ تین سے چار کروڑ یعنی تقریباً 15 فیصد آبادی کے درمیانے طبقے ہے۔ باقی18 کروڑ عوام کے پاس روٹی علاج اور تعلیم کے لیے ہی پیسے نہیں ہیں‘ وہ ڈیم کہاں سے بنوائیں گے۔ پھر یہ بھی سوال اٹھتا ہی کہ کیا یہ اس اقتصادی اور ریاستی نظام کی ناکامی کی دلیل نہیں ہے کہ پھر سارا بوجھ عوام پر لاد دیا جائے۔ وہ عوام جو جبر و استحصال کا شکار ہیں، غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسک رہے ہیں‘ ان کو اس معاشی جبر سے تو آزادی حاصل ہو جس نے ان کا جینا دشوار کر رکھا ہے۔ جبکہ بیرون ملک کی جائیدادوں اور آف شور بینکوں میں پڑی ''اربوں‘‘ کی دولت کو واپس لانا نئے پاکستان کی حکومت کے ایجنڈے میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن ابھی تک تو صرف لندن کے چار فلیٹ ہی عدالت میں پکڑے گئے ہیں۔ ان کی واپسی کے نعرے کچھ اور ہیں جبکہ عملاً برطانوی عدالتوں سے ان کو کروڑوں کے اخراجات سے مقدمے لڑ کر واپس لینے کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ لیکن ان چار فلیٹوں سے کہیں زیادہ بڑے اور مہنگے محلات پاکستان کے حکمران طبقات کے برطانیہ، سپین، فرانس، امریکہ، سوئٹزرلینڈ، دبئی اور کئی دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔ ان اربوں ڈالروں اور جائیدادوں کے بارے میں شور تو کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن ان رقوم اور جائیدادوںکی پاکستان واپسی اور ان کے مالکان کو سزائیں محض نعروں کی حد تک ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ سارے اثاثے قیاس آرائیوں پر مبنی نظر آتے ہیں۔ بیرونِ ملک اثاثوں کی قیمتیں تو درکنار سوئس اور دوسرے بینکوں میں جمع دھن کی درست مقدار کا ہی تعین نہیں ہو سکا ہے۔ کوئی 200 ارب ڈالر کہتا ہے تو کوئی 500‘ کچھ کے مطابق تو یہ ایک سے ڈیڑھ کھرب ڈالر ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے ایجنڈے پر موجود اس اولین ٹاسک کو کم از کم مستقبل قریب میں عملی جامہ پہنائے جانے کے امکانات نہیں ہیں۔ ان بیرونی اثاثوں کی واپسی کے شور کے بر عکس عملی طور پر برآمدگی کے امکانات مخدوش نظر آتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ڈیم بنانے کے لئے چندے کا راستہ اپنایا ہے۔ اس دولت کو واپس لانے اور امیر ممالک پر دبائو ڈالنے کے لیے ایسے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ جن سے ان دھنوانوں کی طاقت ختم ہو جائے۔ ورنہ وہ اپنی دولت کی طاقت سے ہر جال کو پھاڑ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ لیکن دھنوان بھلا دھنوانوں کی دولت اور جائیدادوں کو کیسے ضبط کر سکتے ہیں۔ جہاں سیاست اور حاکمیت دولت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی، اقتدار حاصل نہیں ہو سکتا وہاں حکومت کوئی بھی آئے راج صرف دھنوانوں کا ہی رہتا ہے۔
لیکن تاریخ میں ایسے واقعات بھی درج ہیں جب انقلابی اور جرأت مند لیڈروں نے ڈیم بنائے۔ اس حوالے سے سب سے اہم مثال مصر کی ہے۔ 1952ء کے انقلاب کے لیڈر جمال عبدالناصر نے اس وقت تیسری دنیا کے سب سے بڑے 'اسوان ڈیم‘ کی تعمیر کی تھی۔ ناصر نے سرمایہ داری کے خاتمے اور صنعت و معیشت کو منڈی کی ذلت سے نکال کر قومی تحویل میں لے کر ایک منصوبہ بند معیشت میں ڈھالنے کا عمل شروع کیا تھا‘ لیکن ڈیم کے لئے درکار رقوم بہت بھاری تھیں۔ جمال عبدالناصر نے ایک انقلاب میں ابھرتے ہوئے عوام کی حمایت سے 1956ء میں سینائی اور وسطی مصر کے درمیان تعمیر کردہ سوئز نہر کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بحرِ روم اور بحر قلزم کو ملانے والی 163 میل لمبی اس نہر سے گزرنے والے جہازوں کو پرانے جنوبی افریقہ کے نیچے سے گزرنے والے روٹ سے 7,300 کلومیٹر کم فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ اس بچت کا ایک حصہ نہر سے گزرنے کے ٹیرف کی مد میں نہر کے مالک ممالک حاصل کرتے تھے۔ ناصر کے آنے سے پہلے یہ نہر برطانوی اور فرانسیسی کمپنیوں کی ملکیت تھی۔ ناصر کے سوئز نہر کو قومی تحویل میں لینے کے اقدام کے خلاف اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کی فوجوں نے مصر پر حملہ کر دیا‘ لیکن مصری عوام ڈٹ گئے اور اس جنگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے امریکی سامراجیوں نے صلح کروا دی تھی۔ سوئز جنگ شاید وہ واحد تصادم ہے جس میں مصر اور عرب قوم کا پلڑا بھاری رہا۔ عالمی سمندری آمدورفت کے اعدادوشمار کے ادارے (Sea Int.) کے مطابق 2017ء میں ایک بڑا کارگو جہاز اس نہر سے گزرنے کا 465,000 ڈالر ٹریف دیتا تھا۔ 1960ء کی دہائی میں بھی بھاری رقوم حاصل ہوئی تھیں۔
اس سامراجی لوٹ سے حاصل کردہ دولت سے ناصر نے جو اسوان ڈیم بنایا اس سے336,000 مربع کلومیٹر ریگستان زرخیز ہو کر نخلستان بننا شروع ہو گیا تھا۔ اس سے بجلی کی پیداوار میں 8 گناہ اضافہ ہوا اور زراعت اور معیشت نے اس دور میں بے پناہ ترقی کی۔ یہ ڈیم امرا کی بھاری خیرات اور ''عوام‘‘ کے چندے سے نہیں بلکہ انقلابی ولولے سے سرشار مصری انجینئروں اور لاکھوں محنت کشوں نے اپنی محنت لگن اور جذبے سے تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر سامراجی و مقامی ٹھیکیداروں کو ٹھیکے پر نہیں دی گئی تھی۔ صدر ناصر نے ایسے انقلابی اقدامات کرنے کے لئے معیشت اور ریاست میں رائج نظام کو یکسر بدلنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس سوشلسٹ مصر نے نہ کسی سے بھیک مانگی اور نہ ہی خیرات لے کر یہ عجوبے بنائے۔ سوویت سربراہ کروشچیف نے اس ڈیم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا۔ پاکستان کو خشک سالی، پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے شدیت خطرات لاحق ہیں۔ یہ آفات آسمانی نہیں ہیں بلکہ لوٹ مار کے اس نظام کی وجہ سے ہیں۔ سطحی نعرے بازی اور میڈیا کے پراپیگنڈے سے معاشرے ایسے عظیم منصوبے نہیں بنا سکتے‘ جو قدرت کی اور اس نظام کی ایسی بربادیوں پر قابو پا سکیں۔ ایسا کرنے کے لئے جس پروگرام‘ لائحہ عمل اور معاشرے کی انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے وہ موجودہ سیاست اور حاکمیت کے پاس نہیں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں