برصغیر کے عظیم فلم ساز یش چوپڑا کی فلم''کبھی کبھی‘‘ میں اُس عہد کے پسندیدہ ترین ہیرو ششی کپور کا کردار ایک آرکیٹیک کا ہوتا ہے۔ اپنے ایک کلائنٹ سے فون پر بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے ''مہرا صاحب! ہم مکان نہیں‘ گھر بناتے ہیں‘‘۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں ''میرا گھر‘ میرا گلشن‘‘ کا ڈائیلاگ اکثر ڈراموں اور فلموں میں سننے کو ملتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے بیشتر عوام کی طرح یہاں کی محنت کشوں اور معاشرے کے محروم طبقات پر مبنی وسیع تر اکثریت بھی نسل در نسل اس ''گھر کے گلشن‘‘ کی تلاش میں ہی رہتی ہے اور کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ ترستے ہوئے ہی اس جہاں سے گزر جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان محروموں اور درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں کو اس خواب کا نعرہ دے چکے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھروں کا نعرہ بظاہر تو بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے‘ لیکن جب یہ سپنے ٹوٹتے ہیں اور زندگی کی تلخ اصلیت پہلے سے بھی ابتر کیفیت میں منہ چڑا رہی ہوتی ہے‘ تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ محروم و مظلوم سپنے دیکھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ محرومی کے یہ دلاسے اور لارے جب ناکام و نامراد ثابت ہوتے ہیں تو پھر ایک صدمے کی کیفیت سے نکل کر عوام ایسی بغاوت پر اتر آتے ہیں کہ حکمرانوں کے محلات لرزنے لگتے ہیں اور پورا نظام اس زلزلے سے لڑکھڑانے لگتا ہے۔
عمران خان صاحب کا یہ وعدہ پی ٹی آئی کے وزیر جس بھونڈے انداز میں بیچ رہے ہیں‘ اس سے کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ کتنا مصنوعی ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اہم اور سنجیدہ ماہرین اس ولولے کو مضحکہ خیز کہہ رہے ہیں۔ فی الحال اس کا تخمینہ 160 ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے‘ لیکن شاید یہ اعداد و شمار روپے کی حالیہ بھاری گراوٹ سے پہلے کے ہیں۔ جو معاشی ماہرین ماضی میں کوئی ایک دو عقل کی باتیں کر لیا کرتے تھے اور محنت کر کے نئے اور کلیدی اعداد و شمار کی تلخ حقیقتوں کو واضح کرتے تھے‘ اب وہ بھی چھوٹے چھوٹے عہدوں کے لئے اس تخیلاتی پروگرام کے گن گا رہے ہیں۔ جبکہ میرے خیال میں یہ منصوبہ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور سماجی آمدن کے حالات سے واضح طور پر متضاد ہے۔ رہائش کی حقیقت یہ ہے کہ دیہاتوں میں بڑھتی ہوئی غربت سے پرانے گھروندے خستہ حالی کا شکار ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والوں کے چمکیلے گھروں کی تعمیر بھی اب تھم چکی ہے اور جو ہے وہاں بھی نہ پانی کی سپلائی ہے اور نہ سیوریج کا نام۔ ایسے میں گھٹیا نقالی پر مبنی یہ سیمنٹ اور سریے کے بھدے اور چمکیلے محلات دیہات کی آب و ہوا اور ماضی کی نسبتاً تازگی کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ لاکھوں ایکٹر زرخیز سرزمین سریے اور کنکریٹ کے بوجھ تلے برباد ہو رہی ہے‘ جس کے زراعت اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
شہروں میں بالادست طبقات کے گھروں کی کالونیاں تو عام انسانوں کی پہنچ سے ہی باہر ہیں۔ان شہروں کا پتہ بتانے کے باوجو د وہ ان شہروں میں نہیں رہ رہے ہوتے۔ ان کی رہائش ،سکول ، یونیورسٹیاں، ہسپتال‘ شاپنگ مال اور ریستوران ہی کہیں اور ہیں۔ ان بڑے بڑے محلات میں بہت تھوڑے لوگ رہ رہے ہوتے ہیں۔عام طور پر ان دیوہیکل بنگلوں میں گھر کے اہل خانہ سے زیادہ نوکر‘ سرونٹ کواٹروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ان کے بڑے بڑے لان روز پانی دیئے جانے سے سرسبز وشاداب رہتے ہیں۔ پھر درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کے لئے بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائٹیوں اور پراپرٹی ٹائیکونوں نے مختلف درجات کی کالونیاں مشتہر کر رکھی ہیں۔ گویا رہائش بھی دوسری تمام ضروریات کی طرح مقدار اور معیار کے حوالے سے دولت کی ہی محتاج ہے۔ لیکن زراعت کے برباد ہونے اورمعاشی ذلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہروں کی جانب ہونے والی ہجرت شہروںکی آبادیوں میں تیزی سے اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جبکہ پہلے سے موجود انفراسٹرکچر ایک تو ناکافی ہے‘ دوسرا اس پر مزید سرمایہ کاری نہ کرسکنے کی سرکاری بے بسی ہے۔ ایسے میںمیلوں تک کچی آبادیاں یا جھونپڑپٹیاں پھیلتی ہی چلی جارہی ہیں۔اب تو مختلف شہروں کے درمیان کوئی سرسبز کھیت بھی مشکل سے نظر آتا ہے۔ ہر طرف ادھوری تعمیرات پر مبنی مضافاتی آبادیاں اتنی پھیل گئی ہیں کہ شہروں کے درمیان فرق ہی ختم ہوگیا ہے۔لیکن ان جھونپڑپٹیوں میں نہ تو پانی ہے اور نہ ہی بجلی کا کوئی موثر نظام موجود ہے۔ نکاس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کچی آبادیاں گندگی کا ڈھیر بن چکی ہیں۔جہاں حکمرانوں کی نظر میں ''گندے‘‘ لوگ رہتے ہیں۔ اس نظام کی بربادیوں کی وجہ سے بے روزگاری اور ذلت کا شکار یہ محروم اور نادار‘ان دولت کے دھنوانوں کے لئے محض کیڑے مکوڑے ہیں۔ الیکشن میں ان جھونپڑ پٹیوں کے ان داتا اپنی غنڈ ہ گردی سے ان کے ووٹ بھی بیچ دیتے ہیں۔ پہلے سے موجود کچی آبادیوں کے ''گھروں‘‘ پر خان صاحب کی شاید کوئی توجہ نہیں ہے۔کیا ان جھونپڑپٹیوںمیں رہنے والوں کو بنائے جانے والے ان ''50لاکھ '' گھروں میں بلا معاوضہ شفٹ کردیا جائے گا؟ یہ سوچنے کی کسی حکمران نے کبھی تکلیف ہی گوارا نہیں کی کہ کچی آبادیوں کے باسیوں کا کیا بنے گا۔ پی ٹی آئی کے نئے پاکستان میں اتنا بھی نہیں سوچا گیا کہ ''پرانے پاکستان‘‘ کے ان کچی آبادیوں، گھروں اور سٹیل کی بوسیدہ چادروں والی پناہ گاہوں کو ہی بہتر بنا دیا جائے؟ ان چیتھڑا نما گھروندوں کو ٹھوک ٹھاک کر کچھ سیدھاتو کیا ہی جاسکتا ہے۔ پانی وبجلی اور نکاس کا نیم معیاری ہی سہی‘ ایک نظام تو قائم کیا جاسکتا ہے‘ جس سے ان کچی آبادیوں میں بسنے والے یہ محنت کش خاندان کسی حد تک تو نیم انسانی زندگی گزار سکتے۔ موجودہ ریاستی اور دوسرے خساروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے‘لیکن یہ کچھ تو حقیقت پسندی پر مبنی پروگرام ہوتا۔ لیکن یہاں عوام کے حالات درست کرنے آیاکون ہے؟ اس نئے پاکستان کے 50 لاکھ گھروں والے منصوبے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں جو نمائندے پارلیمانوں اور حکومتوں میں آتے ہیں ان کے پارٹی ٹکٹوں سے لے کر انتخابات جیتنے کے عمل کے ہر مرحلے پر جو افراد فناسنگ کرتے ہیں وہ یہی پرائیویٹ پراپرٹی ٹائیکون اور ٹھیکیدار ہی ہیں‘ جن کی سرکار ی سرمائے کے ساتھ شراکت داری میں ان منصوبوں کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اب پبلک یعنی مالیاتی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ پیسہ صرف مزید قرضہ جات سے ہی حاصل ہوسکے گا‘ جبکہ آئی ایم ایف اور قرضوں پراس حکومت نے جو ڈرامہ رچایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرضے دینے والے پہلے ہی بتاتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کے لئے عوام پر اتنا بوجھ اور ٹیکس لگا دیا جائے کہ ان کی ادائیگیوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن قوت خرید میں گراوٹ کے پیش نظر عمران خان صاحب کی حمایت کرنے والا درمیانہ پیٹی بورژوا طبقہ ‘ آمدن کی کٹوتی سے تلملانے لگاہے۔ ایسے میںان مکانات کو کون خریدے گا؟ جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے بیروزگار تو 20,000 کی ماہانہ قسط بھی ادا نہیںکر سکتے‘ان کی تو کل آمدن ہی اتنی نہیں ہے۔ بس ٹھیکیدار اورپراپرٹی ٹائیکون ''پبلک‘‘ کا پیسہ سرکار سے لے کر فرار ہوجائیں گے‘ اور یہ منصوبہ اپنے آغاز سے پہلے ہی ناکام ہو کر کھنڈرات میں ضم ہو جائے گا۔جب ایک نظام میں عوامی ''اصلاحات‘‘ کے لیے پیسہ ہی نہ ہو تو ''اصلاحات ‘‘ کے نام پر مزید کٹوتیاں ہی ہوتی ہیں جس کو یہ معیشت دان کامیاب طریقہ کار قرار دیتے ہیں۔ پھرچاہے اس میں غریب زندگی سے ہی بیزار کیوں نہ ہو جائیں۔ لیکن یہ محنت کش اور محروم ان محلات کو بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کی بڑی گاڑیوں اور عیاشیوں کا بھی موازنہ کررہے ہیں۔ ان کو یہ احساس ہورہا ہے کہ اس ملک میں چند ایسے دولت مند ہیں جن پر ابھی تک کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکا۔ صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی ان کی دولت چھین کر سماجی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔جب تک یہ معزز اور مخیر لٹیرے نہیں لٹتے اس ملک میں محرومی اور ذلت کا راج رہے گا۔