"DLK" (space) message & send to 7575

مہنگائی کا سیلاب

اس بد نصیب ملک کے محنت کش اور غریب عوام‘ جو پہلے ہی معاشی و سماجی زخموں سے چور تھے‘ اب عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد مہنگائی کے سیلاب میں چلّا اٹھے ہیں۔ ٹیلیویژن ٹاک شوز میں دولت مندوں کی پارٹیوں کے نمائندے اور کچھ گماشتے جس طرح اس مہنگائی کو اپنے پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں‘ اس میں وہ درد اور تکلیف نہیں ہے‘ جس کی اذیت کا شکار عام انسان ہو رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار اور مہنگائی کے وار اس سیاست پر براجمان دولت مندوں کے لئے محض بحث برائے بحث کے دلائل ہیں۔ مہنگائی کتنی بھی کیوں نہ ہو جائے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس سے بہت سے سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن محنت کشوں پر کیے جانے والے مہنگائی کے یہ تابڑ توڑ حملے ان کی روح اور جسموں پر زخم لگا رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا بار بار دہرایا جانا والا بیان کہ ''اس مہنگائی سے غریبوں پر بوجھ نہیں پڑا‘‘ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جتنی تیزی اور جس بے دردی سے یہ حکومت مہنگائی کر رہی ہے اتنی بڑی یلغار محنت کش طبقے کے خلاف کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔
ستمبر2017ء کے مقابلے میں اس سال ستمبر میں ہول سیل پرائس انڈیکس (WPI) 1.6 فیصد سے بڑھ کر 9.2 فیصد ہو گیا ہے۔ گیس، ایل پی جی سلنڈر، خوردنی تیل، گھی، چکن، انڈے، گندم، آٹا، چاول، چینی، گڑ، مرچ وغیرہ کی قیمتوں میں اوسطاً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح کپڑے، جوتے، ادویات، ڈاکٹروں اور نجی علاج کی فیس، پرائیویٹ سکولوں کی فیس، گھریلو فرنیچر وغیرہ اور دوسری بیشتر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے زندگی کو اذیت ناک بنا رہے ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں 10 فیصد سے لے کر 143 فیصد اضافے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو بار بار مؤخر کرنے کا طریقہ کار اپنایا ہوا ہے۔ اب اس حکومت کے لئے یہ مسئلہ نہیں ہے کہ مہنگائی کرنی ہے یا نہیں‘ ان کی ساری توجہ اور تحقیق ایسے طریقۂ عمل پر ہے‘ جس سے بتدریج مہنگائی کی جائے۔ لیکن زخم تیزی سے لگیں یا انسان کو آہستہ آہستہ گھائل کیا جائے درد کو بہرحال مٹایا نہیں جا سکتا۔
روپے کی قیمت میں گراوٹ اور شرح سود میں اضافوں سے پیداوار اور برآمدات میں اضافہ تو نہیں ہوا لیکن سرمایہ داروں نے یہ بوجھ غریبوں اور محروموں پر لاد دیا ہے۔ دوسری جانب کالا دھن ہے جو معیشت کا حاوی حصہ ہونے کے باوجود کسی معاشی قانون کے تابع نہیں‘ اور سرکاری اداروں کو نہ اس کا مکمل اندازہ ہے اور نہ ہی اس پر ریاستی رِٹ لاگو ہوتی ہے۔ اس کالے دھن کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کچھ علاقوں میں ریاستی قانون کو نافذ کرنا مشکل تھا‘ تو ان کو ''علاقہ غیر‘‘ کہا جانے لگا۔ کالے دھن کے ان داتا بڑے حجم کے ساتھ کاروبار، سیاست اور ریاستی امور میں مالیاتی طاقت سے اپنی حکمرانی بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جب حاکمیت ہی اس کے سرداروں کی ہو تو پھر اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی جرات بھلا کون کر سکتا ہے۔ حکومت نے 570 مختلف اشیاء اور شعبوں پر 5 سے 90 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی ہے۔ اس سے حکومت کے خزانے میںکچھ آیا ہو یا نہیں لیکن مہنگائی میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ آج کے عہد میں درآمدات کسی بھی معاشرے میں بنیادی ضروریات اور مصنوعات کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ان اقدامات سے صرف ستمبر میں تیل کی قیمتوں میں4.81 فیصد، ٹرانسپورٹ سروسز میں 15.39 فیصد، تعلیم میں 15.40 فیصد، گوشت میں 10.02 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مکانوں کے کرایوں میں اضافہ ان کے علاوہ ہے۔ سیمنٹ کی قیمتوں میں 80 روپے فی بوری اضافہ ہوا ہے۔ اگلے ماہ سے تیل کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ متوقع ہے جس سے مہنگائی کا یہ سیلاب مزید بھڑکیلا اور تیز ہو جائے گا۔ پہلے 100 دن کا ''ہنی مون پیریڈ‘‘ مانگا گیا تھا اور وزیر خزانہ نے اب تین سال کا عرصہ مانگ لیا ہے۔ لیکن ان تین سالوں میں اگر مہنگائی بڑھتی رہی اور بیروزگاری میں روزانہ ہونے والا اضافہ جاری رہا تو پھر یہ عوام کیسے اور کب تلک برداشت کریں گے؟ زندگی پہلے ہی اجیرن تھی اب اس نئے پاکستان کے اذیت ناک عذابوں میں کراہنے لگی ہے۔ لیکن اس معیشت کو جاری رکھنے اور نظام کو قائم رکھنے کے لئے قربانی پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تقریباً ہر حکمران ہی یہ جملے بار بار دہراتا رہا ہے۔ قربانی تو غریبوں کو مجبوراً دینا پڑتی ہے اور حب الوطنی کا سارا ثبوت بھی انہی کو دینا پڑتا ہے لیکن یہاں کے محنت کش عوام کو کبھی بھی وہ بہتری و سماجی ترقی اور سہل زندگی نصیب نہیں ہوئی جس کے لیے قربانیوں کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے۔ گورنر ہائوس کی سیر‘ خالی پیٹ، مہنگائی، غریبی و لا علاجی اور بے روزگاری کی ذہنی اذیتوں کے ساتھ کوئی مزہ نہیں دیتی۔ آبادی کا کتنا حصہ ان ''کھولے گئے‘‘ گورنر ہائوسوں تک رسائی کے لئے کرایہ خرچ کرنے کی توفیق رکھتا ہے؟ ایسے اقدامات سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور معاشروں میں تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں۔
حکومت کا سارا زور پچھلی حکومت کے منصوبوں کی جانچ پڑتال اور ان میں کرپشن ڈھونڈنے میں لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے پاس کوئی بات نہیں۔ آج اور آنے والے کل کے لئے ان کے پاس نہ کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی لائحہ عمل۔ آج کے عہد کی دانش اتنی گر چکی ہے کہ میڈیا اور سماجی ڈھانچوں پر حاوی مفکرین اور تجزیہ کار یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومتیں لانے یا گرانے میں عوام کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے۔ ان کا یہ تجزیہ آشکار بھی ہو رہا ہے کیونکہ انتخابات سے لے کر قانونی حکمرانی تک کی اجازتیں اور پسند کا سرچشمہ کوئی اور ہے۔ چاہے اس میں بیرونی مشرقی و مغربی سامراجی ہوں یا وہ مقتدر قوتیں ہوں جن کے پاس اصل طاقت ہے۔ لیکن پھر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب محنت کرنے والے اس ظلم اور استحصال کے طوق کو اتار پھینکتے ہیں۔ سامراجی اور مقامی جابر طاقتوں کا جاہ و جلال اور غلبہ ریت کی دیواریں بن کر عوامی تحریک کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ کسی ایسے ملک گیر تحریک کو ابھرے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے اس لیے آج کے غالب دانشور اور ماہرین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب شاید طبقاتی کشمکش ہی ختم ہو چکی ہے اور یہ خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹل گیا ہے۔ لیکن تاریخ اور وقت ان کو جس صدماتی حیرانی سے دوچار کریں گے اس کا انہیں فی الحال اندازہ ہی نہیں ہے۔
موجودہ حکومت اتنی کمزور ہونے کے باوجود اتنی مضبوط صرف اس لیے قرار دی جا رہی ہے کہ اس مخصوص وقت میں مقتدر قوتوں کے لیے یہ نہ صرف تابعدار بلکہ ان کے مفادات کے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھی جا رہی ہے۔ وزیر‘ اس حکومت کے بھی کرپٹ ہیں‘ لیکن ان کے لیے جیلوں کے دروازے ہی بند کروا دیئے گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے لا تعداد مرتبہ یہ بیان دہرایا ہے کہ ''فوج کی ہمیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے‘‘۔ نا جانے وہ اس جملے کو دھرا کر کس کو‘ کیا باور کرانا چاہتے ہیں۔ شاید اپنے آپ کو ہی بار بار تسلی دے رہے ہوں گے‘ ورنہ یہ کوئی ایسی خفیہ داستان نہیں ہے جس سے یہ معاشرہ روشناس نہ ہو۔ لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اور ''دوست‘‘ ممالک کے قرضے صرف پرانے قرضوں کی ادائیگیوں اور ان پر ادا کیے جانے والے سود پر صرف کیے جانے ہیں تو پھر حکومت اور ادارے چلانے کے لئے خالی خزانے کو ان اصل امیروں کے پیسے ضبط کرنے سے تو بھرا نہیں جانا،جن کا نام لینا بھی ایک جرم ہے۔ حکمران طبقات اور ادارے اربوں کے اخراجات اور منافعوں میں ایک پائی کی کمی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر یہ برق صرف محنت کشوں اور غریبوں پر ہی گرتی رہے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ محنت کش اور پسے ہوئے طبقات یہ ظلم کب تک برداشت کریں گے۔ ان کو اپنی زندگی کی بقا کے لئے تاریخ کے میدان میںاترنا ہو گا۔ لیکن جب طبقاتی جنگ شروع ہو گی تو یہ آخری لڑائی ہو گی جو اس ملک کے باسیوں کے مقدر کا فیصلہ کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں