دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں کا سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام بحران کی وجہ سے کالے دھن سے پاک ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بڑے بڑے سرمایہ دار بھی اپنی شرح منافع کو تسلسل دینے کے لئے اسی نظام میں غیر قانونی دولت اکٹھی کر کے اس کو ''آف شور‘‘ بینکوں میں ذخیرہ کر کے رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان کا نظام زر اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اس کا وسیع تر حصہ اس کالی معیشت کے غلبے میں ہے۔ جہاں معاشی بحران سیاسی اور ریاستی انتشار کا باعث بنتا ہے وہاں پھر سیاسی اور ریاستی پالیسیاں بھی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ضیاء الحق نے افغانستان میں ''انقلاب ثور‘‘ کو کچلنے کے لئے سامراجی ایما پر جو جہاد شروع کیا تھا‘ اس کے پاکستان کے معاشرے اور اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1978ء تک پاکستان کی کل معیشت میں کالی معیشت کی حصہ داری 5 فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ اب یہ کُل معیشت کا اکثریتی حصہ بن چکی ہے۔ اس کے سیاسی‘ سماجی اثرات اور دہشت گردی کے نتائج عام لوگ بھگت رہے ہیں۔ ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر سے نسلیں اجڑ رہی ہیں۔ حکمران طبقہ اس کے تابع ہونے کی بدولت اس ناسور کو کاٹ پھینکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
انتہائی محتاط اور مستند سمجھے جانے والے ماہرین کے مطابق بھی کُل معیشت کا 70 فیصد کالی معیشت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ کالی معیشت‘ سرکاری اعداد و شمار میں نظر آنے والی معیشت کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار (GDP) سرکاری طور پر بتائے جانے والے تقریباً 300 ارب ڈالر سے دو سے تین گنا ہے۔ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام بلکہ افسر شاہانہ منصوبہ بند معیشتوں میں بھی کالی معیشت بالعموم سفید معیشت کے چھوڑے ہوئے خلا پُر کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ اتنے وسیع حجم کی حامل ہو جائے تو سفید معیشت پر حاوی ہو کر اس کی حرکیات کا تعین کرنے لگتی ہے۔
اس معیشت کا وسیع حصہ ہر طرح کی کرپشن، بد عنوانی، رشوت ستانی، ٹیکس چوری اور منشیات جیسے دھندوں پر مشتمل ہے۔ یہاں سمگلنگ اور ڈرگ ٹریفکنگ جیسی قانونی طور پر نا جائز سرگرمیوں کے حجم کا تخمینہ پانچ ہزار ارب روپے تک ہے لیکن یہ دیوہیکل کالی معیشت ساری کی ساری ایسے جرائم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ٹھیلے والے اور پرچون فروش سے لے کر کنسٹرکشن اور بڑے پیمانے کی صنعت تک ہر ایسی سرگرمی جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے‘ اِس کالی معیشت میں شمار ہوتی ہے۔ جیسا کہ مقداری تناسب سے بھی ظاہر ہے ملک کا اکثریتی روزگار اسی معیشت سے وابستہ ہے‘ لیکن ان زیادہ تر عارضی نوکریوں میں استحصال کی شدت کہیں زیادہ ہے۔ یوں اِس کالی معیشت کا اپنا ایک سائیکل ہے جو نہ صرف یہ کہ سفید معیشت پر حاوی ہو چکا ہے بلکہ اس کے بغیر منڈی سکڑ جائے گی اور ساری معیشت ہی دھڑام ہو جائے گی۔
اِس معیشت سے وابستہ حکمران طبقات اور سیاسی و ریاستی اشرافیہ کے اپنے مالی مفادات سے قطع نظر بالفرض ریاست چاہے بھی تو اسے سرکاری لکھت پڑھت اور کنٹرول میں لانا ممکن نہیں‘ کیونکہ ان سرگرمیوں کا وجود ہی کسی قسم کے چیک اینڈ بیلنس اور ٹیکسیشن سے ماورا ہونے سے مشروط ہے۔ مثلاً مسلم لیگ کی حکومت اپنے دور میں تقریباً ہر سال ایک ایمنسٹی سکیم متعارف کرواتی رہی۔ ان سکیموں سے فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگوں نے اپنا کالا دھن سفید بھی کیا لیکن مجموعی حاصلات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رہیں۔
اتنے بڑے پیمانے کے کالے دھن کے ساتھ کرپشن اِس نظام کی خرابی کی وجہ نہیں بلکہ اس کی ناگزیر پیداوار اور اس کے وجود کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ کرپشن پر 'قابو‘ پانے کے لئے بنائے گئے ادارے نہ صرف خود کرپٹ ہیں بلکہ کرپشن کے آلہ کار بن چکے ہیں‘ یوں سماج کی رگوں میں دوڑتے اِس کالے دھن نے صرف اپنی دھونس اور دھاندلی کی سیاست تشکیل دی اور طرزِ زندگی، بود و باش اور ثقافت کو مسخ کیا بلکہ ریاست کو بھی اپنے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے؛ چنانچہ کسی ایک ادارے یا پوری ریاست کی‘ ایک کرپٹ نظام کو 'ٹھیک‘ طریقے سے چلانے کی کوشش کسی بہتری کی بجائے مزید مسائل ہی پیدا کرتی ہے۔ بد عنوانی کے ریٹ بڑھنے لگتے ہیں یا پھر کرپشن کے تیل سے جو زنگ آلود مشینری کسی نہ کسی طرح چل رہی ہوتی وہ بھی رُک جاتی ہے۔ ایسے حالات انقلابی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں جن کے تحت پورے کے پورے نظام اکھاڑ کر نئے نظام کھڑے کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن اس کالی معیشت نے کینسر کی طرح پھیل کر جہاں ایک بے ترتیب اور پر انتشار سماجی ارتقا کو جنم دیا ہے وہاں سرکاری معیشت رو بہ زوال ہوتی چلی گئی ہے۔
یہ درست ہے کہ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری سے معیشت کی شرح نمو بلند ہو کر 5.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے لیکن ایک تو یہ زیادہ تر 'جاب لیس گروتھ‘ ہے جس میں بہت زیادہ نیا روزگار پیدا نہیں ہوا ہے۔ دوسرا یہ مستحکم نہیں ہے کیونکہ ٹھوس بنیادوں سے عاری ہے۔ لہٰذا لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ علاوہ ازیں اس سے معیشت کے تضادات دبنے کی بجائے مزید بھڑک اٹھے ہیں۔ مثلاً پچھلے پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں کے حجم میں 30 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملکی معیشت ریکارڈ داخلی و خارجی خساروں سے دوچار ہے اور بورژوا تجزیہ نگاروں کے تاثر کے برعکس بحران کے دہانے پر نہیں کھڑی بلکہ سنگین بحران میں گھری ہوئی ہے۔
30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 2018ء میں تجارتی خسارہ 37.7 ارب ڈالر رہا ہے جو پچھلے مالی سال سے 16 فیصد زیادہ تھا۔ 2008ء کے بعد تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آتا ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً 2014ء میں یہ خسارہ 20 ارب ڈالر، 2015ء میں 22.2 ارب ڈالر، 2016ء میں 23.9 ارب ڈالر، 2017ء میں 32.5 ارب ڈالر اور پھر 2018ء میں 37.7 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
اس تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ تکنیکی پسماندگی اور بجلی کی زیادہ قیمتوں جیسے عوامل کی وجہ سے یہاں پیدا ہونے والی زرعی و صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں چین جیسے ممالک کی سستی اجناس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کے لحاظ سے پاکستان کُل 137 ممالک کی فہرست میں 115ویں نمبر پر ہے۔
داخلی سطح پر بجٹ خسارہ بے قابو ہو کر 2.26 ہزار ارب روپے (جی ڈی پی کا 6.6 فیصد) تک پہنچ چکا ہے۔2016ء میں رجسٹرڈ تقریباً 72 ہزار فرموں میں سے نصف سے بھی کم نے ٹیکس ریٹرنز فائل کیے۔ اور ان میں سے بھی نصف نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ یوں کارپوریٹ ٹیکسوں کی نمو مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور حکومتوں کا زیادہ انحصار پھر عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکس لگانے پر ہے۔ لیکن سرمایہ دار طبقے کو دی گئی اتنی چھوٹ کے باوجود نجی سرمایہ کاری رو بہ زوال ہے۔دوسری طرف کالے دھن کا بھاری بھرکم وجود اس نظامِ معیشت کے جسم اور اعضاء میں جڑیں تک پھیلا چکا ہے۔ ان کو علیحدہ کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ یہ کالی معیشت نہ صرف اس نظام کے لئے ایک ''بفر‘‘ کا کردار ادا کرتی ہے بلکہ یہی اس کو اندر سے کھوکھلا اور نیم المرگ بھی بنا رہی ہے‘ جس سے اس نظام میں چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بات طے ہے کہ معیشت کی اِس دگرگوں کیفیت کے ساتھ یہاں کوئی مستحکم اقتدار قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی جس طرح مہنگائی اور نجکاری کے تابڑ توڑ حملے محنت کشوں پر شروع کر رکھے ہیں‘ اس سے یہ چند ہفتوں میں ہی مکمل طور پر بے نقاب ہو گئی ہے۔