"DLK" (space) message & send to 7575

لوڈر

جمہوریت کے بلند ایوانوں میں جاری ہلڑ بازی اور افراتفری کالے دھن کی پیداوار سیاستدانوں کے کردار اور نفسیات کو بے نقاب کررہی ہے۔ نئے پاکستان کے کچھ لوگ نہ صرف اس رجعتیت کی غمازی‘ بلکہ موجودہ عہد کی تصویر کشی بھی کررہے ہیں۔مشاہد اللہ‘جو پی آئی اے کے سابق ملازم ہیں‘کو یہ لوگ سب سے بڑا طعنہ ''لوڈر‘‘ ہونے کا دے رہے ہیں۔معاشرے پر مسلط موجودہ دور کی سیاست اور دانش کا معیار ان بیانات سے بہ آسانی جانچا جاسکتاہے۔ بنیادی طور ان لوگوں نے نودولتیوں کی اس حکومت میں محنت کشوں کی جانب پائے جانے والی تضحیک اور منافرت ظاہر کی ہے‘ حالانکہ اس منافرت کی شکار وسیع تر اکثریت کی محنت سے ہی سماج کو زندگی ملتی ہے ‘لائٹیں جلتی ہیں‘کارخانے چلتے ہیں‘سروسز مہیا ہوتی ہیں‘ریلیں چلتی ہیں۔اگر انسانی محنت کا عنصر معاشرے سے نکال دیا جائے تو یہ سماج جام ہو کر کاروبارِ زندگی سے ہی محروم ہوجائے گا۔یہ لوڈر گندم اور غذائی اجناس سمیت کئی ضروریاتِ زندگی اپنی پیٹھوں پر لاد کر نقل وحرکت سے معاشرے کو توانائی بہم پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنا خون پسینہ بہا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں‘کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ‘کسی سے بھیک نہیں مانگتے۔
آج یہ وقت آن پہنچا ہے کہ لوڈرہوناگالی بنا دیا گیا ہے‘اور یہ طعنہ دینے والوں کے پاس آئی اچانک دولت کا ذریعہ محض بیہودہ طنز‘ دوسرے کی تضحیک‘ سیاسی حریفوں پر گھٹیا جملے کسنا‘ رجعتی رجحانات سے منافرتیں پھیلانا‘ لبرل ازم کا ڈھونگ رچانا جبکہ اندر سے قدامت پرستانہ نفسیات کا ہونا‘ اور سب سے بڑھ کر کاسہ لیسی اور اپنے اَن داتا کو ایک بھگوان اور دیوتا بنا کر پیش کرنا ہے۔ ان کے دفاع میں آنے والے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے پاس کوئی بہتری کا پروگرام ‘لائحہ عمل اور کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ لیکن یہ بڑے حکمران کون ہیں؟پچھلے کچھ عرصے سے سیاست ، معاشرے اور ریاست کے دوسرے شعبوں پر براجمان حکمرانوں میں یہ تاثر شدت اختیار کرگیا ہے کہ''ہم جدی پشتی اور خاندانی رئیس ہیں‘‘۔ پہلے تو یہ اس احساسِ کمتری کا اظہار ہے کہ تاخیر سے اورزیادہ دولت آنے کی وجہ سے یہ پرانے دولت مندوں کی صفوں میں اپنی جگہ بنانے اور حکمران طبقات کا حصہ بننے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن پھر پرانے حکمران طبقات آخر کون ہیں؟ تاریخی اعتبار سے یہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار جدی پشتی ایسے نہ تھے‘ اورپھر جس دو نمبر طریقے سے سامراجی گماشتگی میں انہوں نے یہ ''رتبے‘‘حاصل کیے‘ وہ جعلی اور فراڈ پر مبنی طریقۂ واردات سے حاصل ہوئے ہیں۔ برصغیر جنوبی ایشیا اور آس پاس کے خطوں میں تاریخی طور پر کبھی بھی کلاسیکی جاگیرداری آئی ہی نہیں تھی۔یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں جو سماجی ارتقا ئی ڈھانچہ چل رہا تھا اس کو مارکس نے ''ایشیائی طرزِپیداوار‘‘کا نام دیا تھا۔یہاں چھوٹے چھوٹے دیہات تھے جہاں زمین اور دوسری پیداوار میں نجی ملکیت تھی ہی نہیں۔ہر بنیادی سماجی یونٹ ایک کمیون کے طرز پر کام کرتا تھا اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مختلف شعبوں میں کام کی ایک تقسیمِ کار تھی۔جو جوتے بناتا تھا وہ موچی کہلانے لگا‘ جو برتن بناتے تھے وہ کمہار اور جو کھیتی باڑی کرتے تھے وہ کسان تھے۔ ان میں پیشوں کے حوالے سے نہ کوئی تعصب تھا اور نہ ہی کسی قسم کی ذات پات کی تقسیم۔یہاں بڑے بڑے حملہ آور آئے‘ لیکن سبھی دہلی‘فتح پور سیکری‘لاہور اور دوسرے دارالحکومتوں تک ہی محدود رہے۔ نہ وہ یہاں کی زرخیز سرزمین میں موجود ان بنیادی سماجی یونٹوں میں مداخلت کرسکے اور نہ ہی اس بنیادی ڈھانچہ سازی میںکوئی تبدیلی لے کر آئے۔ انگریزوں کے صنعتی انقلاب کے بعد جارحیت اور سامراجی قبضے سے ایک مسخ شدہ اور ناہموار طریقۂ واردات کے ذریعے جب سرمایہ دارانہ رشتوں کو معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے نہ موجودہ سماجی ڈھانچہ یورپ کے صنعتی انقلاب والی سماجی یکجہتی اور جدیدیت حاصل کرسکا‘ اور نہ ہی ماضی کے رشتوں کو جاری رکھنا ممکن رہا۔اس سے ناہموار اور متضاد بنیادوں پر استوار ایک بے ہنگم اور بگڑا ہوا معاشرہ تشکیل پایا ‘جس کی پُر انتشار شکل آج تک موجودہے۔ برطانوی سامراج نے 1793ء میں بنگال میںمستقل نوآبادکاری کی پالیسی کے تحت جاگیرداری کو جنم دیااور اس کو سامراجی قبضے کے لئے استعمال کیا۔ جو امرا اور زمینوں کے منصب دار مقامی عوام کی بغاوتوں اور تحریکوں سے غداری کرتے تھے اور ان کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیتے تھے‘ ان کو جاگیروں کے انعام دیئے جاتے تھے۔ آج کے جاگیرداروں اورزمینوں کے مالکوںکے پاس یہ جاگیریں اپنے لوگوں سے غداری کی سند کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
اسی طرح یہاں سرمایہ دار طبقات بھی مصنوعی تھے‘ جن کا یہ کردار آج تک نہیں بدلا۔ یہ یورپی سرمایہ داری کی طرح یہاں صحت مند سرمایہ داری استوار نہیں کر سکے۔ یہ ٹیکس چوری اور حکومتی خزانے کی لوٹ کے ذریعے صنعت کار ی کرتے ہیں‘ اور محنت کشوں کا وحشیانہ استحصال کرکے اپنے منافع جات بڑھاتے ہیں۔ اب کالے دھن پر مبنی ایک مزید نیا نودولتی حکمران طبقہ ان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ لوگ نہ تو صنعتیں لگاتے ہیں اور نہ ہی کسی پیداواری عمل میں شامل ہیں بلکہ ہیراپھیری اور جرائم کے ذریعے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ قوم پرستی کی بجائے یہ طبقہ تعصبات کو استعمال کرکے محنت کش عوام کے ذہنوں کو مفلو ج کرتا ہے۔ اس لیے یہاںکے کچھ '' خاندانی‘‘اور''خونی‘‘رئیس اور جد ی پشتی بڑے لوگوں کی اصلیت انتہائی بھیانک اور شرمناک کہی جا سکتی ہے۔ لیکن ہر کوئی بس اپنے آپ کو خاندانی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ سیاست اور معاشرے پر یہ رجحانات حاوی ہیں۔ ثقافت اتنی گر گئی ہے کہ انسان کو انسان سمجھنا ہی محال ہو گیا ہے۔ رنگ‘ نسل‘ قوم‘ ذات پات‘ برادری‘ مذہب اور فرقوں کی تقسیموں میں معاشرہ پھٹ بھی رہا ہے اور گھائل بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو حکمران طبقہ براجمان ہوا وہ انگریزوں کے بنائے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اشرافیہ پر مبنی تھا۔ یہ اپنی جہالت میں محنت کشوں کوکمی کمین کہہ کر ان سے حقارت کی نفسیات پھیلاتے تھے۔ لیکن 1960ء کی دہائی کے اواخر میں انہی '' کمی کمینوں ‘‘ کو جب اپنی ذلت اور طاقت کا احساس ہوا تو پھر یہ جاگیردار اور سرمایہ دار چھپتے پھر رہے تھے۔ انہی لوڈروں اور محنت کشوں نے ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ محنت کی طاقت کو عظمت ملنے کا وقت قریب محسوس ہو رہا تھا۔ طاقت کے ایوانوں کے سرخ فیتے والوں کو لائل پور میں مختار رانا جیسے مزدور لیڈروں کی کھولی کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر مزدوروں کی رائے کے بعد ان کی ٹرانسپورٹ اور دوسرے کاروبار چلنے کی اجازت مزدور لیڈر دیا کرتے تھے۔ یہ کھولی مزدور یونین کا کچی آبادی میں ایک دفتر تھا‘ جو اجازت دیتا تھا۔ وہ وقت نہیں رہا۔ یہ بھی نہیں رہے گا! جب مزدور اور لوڈر ہونا ایک قابل تضحیک کام بنا دیا گیا ہے۔ فروری 2016ء کی ہڑتال میں پی آئی اے کے ''لوڈروں‘‘نے زمانے کو دکھایا کہ اس طبقے کی طاقت کیا ہے؟ لوڈروں سے لے کر پائلٹوں تک جب اس ادارے کے تمام محنت کش نجکاری کے خلاف جدوجہد میںمتحد ہو کر میدان عمل میں نکلے تو تمام پروازیں بند ہو گئیں۔ جہاز گرائونڈ ہو گئے اور فضائی پروازیں معطل کر دی گئیں ۔
نودولتیوں کی حقیقت تلاش کرنے کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی گفتگو ‘باڈی لینگویج اورحرکات و سکنات سب کچھ عیاں کررہی ہیں۔ آج ان کی ایسی باتوں پر ان کو شاباش دی جا رہی ہے۔ ان کو شاید انہی کرداروں اور افکار کی بنیاد پر مناصب ملے ہیں‘لیکن جس ثقافت کا یہ مظاہرہ کررہے ہیں اورجس تہذیب کی یہ غمازی کرتے ہیں وہ اس نظام اور سیاست کے گلنے سڑنے کی بدبو سے انسانوں کو تعفن زدہ کررہی ہے۔ ٹیلی ویژن پر ان چہروں کی مسلسل براجمانی اوران کی گفتگوثقافتی تنزلی کے اس عہد کو مزید ہولناک بنا رہی ہے۔ ہر ذی شعور انسان میں اس حاکمیت کے خلاف ایک حقارت پیدا ہو رہی ہے‘ لیکن جب عوام کو یہ احساس ہوگیا کہ یہ اس سماج اور نظام کی تصویر کشی کررہے ہیں تو معاشرے کی کوکھ سے استحصال کی وحشت کے خلاف بغاوت بھی دھماکہ خیز ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں