حالیہ کچھ ہفتوں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کی برطرفیوں‘ اجرتوں کی عدم ادائیگیوں ‘ملازمتوں کے حقوق کے خاتمے اور بڑے پیمانے پر ٹھیکیداری نظام کے نفاذ سے سینکڑوں‘ بلکہ ہزاروں صحافیوں کی زندگیاں اجیرن بنتی جا رہی ہیں ‘جس کا شکار خصوصاً نچلی پرتوں کے صحافی بن رہے ہیں ۔ آجکل کی صحافت کی نئی پَوت شاید اپنے آپ کو مزدور کہلوانا بھی نازیبا سمجھتی ہوگی ‘ لیکن اس میں ان کا قصور نہیں ہے‘ کیونکہ موجودہ عہد پرایک رجعتیت حاوی ہے ۔ عمومی سماجی سوچ اور نفسیات پر دائیں بازو کی قدامت پسندی اور سرمائے کی اخلاقیات و اقدار حاوی ہیں ۔ ان فرسودہ اقدار کے مطابق تمام پیداوار ‘ ترقی اور کامیابی کا وسیلہ و ذریعہ اب پیسہ اور سرمایہ کاری ہے ۔ محنت تو بس دولت کی لونڈی ہے ۔ سب کچھ دولت کرتی ہے اور ہر چھوٹابڑا انسان اس مایہ کامحتاج ہے۔ اس میں مادی عنصر بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں نے 2000 ء کے بعد سے ہر شعبہ میں سرمایہ کاری اور نئی صنعت کاری میں بتدریج انداز سے ایک بڑی تبدیلی کی ہے ۔ اب ہر شعبے میں صنعت کاری Labour Intensive کی بجائے Capital Intensiveہے اور مزدوروں کو ٹیکنالوجی ‘جدید مشینری اور خود کار آلات سے تبدیل کرنے کا عمل جارحانہ انداز میں شروع ہے ۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام میں ٹیکنالوجی کی یہ جارحیت بڑے پیمانے پر بیروزگاری‘ محرومی اور غربت کو جنم دے رہی ہے ۔ اس کی پیش گوئی کارل مارکس نے ایک سائنسی تناظر کے تحت اپنی شہر ہ آفاق کتاب ''سرمایہ‘‘ کے صفحات پر ڈیڑھ سو سال قبل واضح انداز میں کردی تھی ۔ اس وقت ٹیکنالوجی کی یہ جارحیت دنیا بھر میں اور خصوصاً چین‘ بھارت اور دوسرے ترقی پذیر غریب ممالک میں بھی تیزی سے جاری ہے ۔ یہی طرزِ صحافت کی صنعت میں بھی پوری طرح لاگو کیا گیا ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد سرمایہ داری کے عالمی بحرانوں اور زوال سے گرنے والی شرح منافع کو مستحکم کرنااور اس میں مزید اضافہ کرنے کے لئے اجرتی محنت پر اخراجات کو کم کرکے مشینوں پر لمبے عرصے کی کفایت شعاری کا طریقہ کار استوار کرنا تھا ۔نئی ٹیکنالوجی کو عام انسانوں اور محنت کشوں کے لئے آسودگی کا ذریعہ بننا چاہے تھا‘ لیکن اس منافع خوری کے نظام میں یہ مزید بیروزگاری اور ذلت کا باعث بن گئی ہے ۔ مارکسزم جدید ٹیکنالوجی اور ہر قسم کی صنعتی وسماجی ترقی کا خواہاں ہے ‘لیکن یہ نسلِ انسان کے لیے آسودگی صرف اس کیفیت میں لاسکتی ہے جب اس کا مقصد منافع خوری کی بجائے انسانی سماج کی اشتراکی ضروریات کی تکمیل ہو اور یہی تمام پیداوار اور سروسزکے اداروں کا اولین مقصد بن جائے ۔ معاشرے کی مساوی ترقی تبھی ممکن ہے جب تمام دولت اور ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت ایک منڈی کی بجائے منصوبہ بند معیشت کے تحت اشتراکی ملکیت میں ہوں ۔
پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی کی اس یلغار میں مزدور پس رہے ہیں ۔ صحافت اور ذرائع ابلاغ کی صنعت میں شاید اس کی مداخلت دوسرے شعبوں سے بھی زیادہ ہے‘ لیکن الیکٹرانک میڈیا اور شوبز ایسے شعبے ہیں کہ جہاں افراد کے کردار کی اہمیت یکسرختم نہیں کی جاسکتی‘ بلکہ سٹارپاوراس کی ترقی اور وسعت میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے میں اس سٹار پاور کے حصول کے لیے چند فلمی ستارے‘ صحافتی پنڈت اور اینکر پرسن ناگزیر ضرورت بن جاتے ہیں۔اسی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا میں ان کو بے بہا ''تنخواہیں‘‘ ملتی ہیں۔ ریٹنگ کی جنگ اور اندھی دوڑ میں وہ مسلسل غرق ہو کر اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتے ہیں‘کیونکہ بھاری مالیاتی سرمائے کے حصول کے لئے انہیں طرح طرح کے کرتب کرنے پڑتے ہیں اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے سے گریزنہیں کرتے‘ لیکن میڈیا صنعت کے مزدور اور عام صحافی اس مالیاتی تفریق میں اُس استحصال زدہ طبقے کا حصہ بن جاتے ہیں جو تحریک اور بائیں بازو کی تنزلی کی وجہ سے آج کا مزدوربنا ہوا ہے۔بیروزگاری کے بحر میں ہر شعبے میں رش بہت بڑھ گیا ہے؛ چونکہ پچھلی چند دہائیوںسے میڈیا کی صنعت میں اسٹارڈم کا بہت چرچا ہوا ہے اس لئے نوجوان‘ صحافت کو حاصل شدہ مراعات اور ایک سماجی رتبے کے حصول کے لئے اس شعبے کی جانب رجوع کرتے رہے ہیں اور کربھی رہے ہیں۔ اپنے ہی صحافی محنت کش ساتھیوں کی نظر انداز ی اور پامالی اسی سٹارڈم اور دولت کی ہوس کی شدت ہے۔
ایسے میں اس صنعت میں مالیاتی سرمائے کی بھی یلغار ہے۔ بہت سا ''دھن‘‘ اس شعبے میں داخل ہوگیا ہے۔ ا س کی ایک وجہ اس شعبے کی مراعات یافتہ سماجی حیثیت میں اس ''دھن‘‘ کا تحفظ بھی ہے۔ لیکن ماضی میں صحافیوں کی تحریریں‘ نظریات‘ تحریکیں‘ یکجہتی‘ یونینوں کی طاقت اورسچائی کے اقدار واخلاقیات کے معیار زوال پذیر ہیں۔ پی ایف یو جے اور دوسری بہت سی صحافیوں کی یونینوں کی بہت درخشاں صحافتی اور سیاسی جدوجہد بھی ہے۔ ریاستی جبر اورآمریتوں کے ظلم وستم کے خلاف صحافیوں کی مزاحمتی تحریکوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ آج ان کی یونینز کے دھڑے زیادہ اور ممبران کم ہیں۔ نچلی پرتوں کے صحافیوں کواجرتوں کی ادائیگیوں کے لیے مہینوں انتظار اور کسمپرسی کا مسلسل سامنا ہے۔ غیر معروف لکھاریوں اور تجزیہ نگاروں کے افکار اور تجزیات میں بھلے کتنی بھی سچائی ہو ‘لیکن موجودہ عہد کے مسلط کردہ اقتدار اورنان ایشوز کی یلغار کے سامنے میںوہ ہیچ اور پرانے خیالات قرار دے کر مسترد کردئیے جاتے ہیں۔ سرمائے کی اتنی طاقت ہے کہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشرتی حاوی شخصیات کی طرح سرمائے کی طاقت کے آگے صحافت کی سچائی بھی زیر ہو کر رہ گئی ہے۔ مزاحمت اور سچ کی بات کرنا ہی اپنے کیرئیر پر ضرب لگانے کے مترادف ہوگیا ہے۔
لیکن اس دور میں بھی ایسے صحافی موجود ہیں ‘جو سچائی اور مزاحمتی سوچ رکھنے کی پاداش میں اپنا ''سٹارڈم‘‘ اور اعلیٰ ملازمتیں گنوا رہے ہیں‘ لیکن بڑے بڑے انقلابی بھی مقتدر قوتوں کے خانہ نگار بن گئے ہیں۔امریکہ ‘ لندن یا پھر بھارت کا ''آزاد میڈیا ‘‘ہو آج دنیا بھر میں جمہوریت کی میٹھی تیغ میں سینچے زہریلے جبر کو مسلط کیا جارہا ہے اور اس پر عملداری انہی میڈیا سٹارز کے ذریعے کروائی جارہی ہے۔ ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ اس کارپوریٹ میڈیا کے بارے میں لکھا تھا کہ '' عام حالات میں میڈیا زیادہ تر سچی خبریں اس لیے دیتا ہے کہ غیر معمولی انقلابی لمحات میں جھوٹ بول کر اس کو سچ ثابت کرسکے‘‘۔ فرانس کے حالیہ واقعات میں ہمیں سامراجی کارپوریٹ میڈیا کا کردار واضح انداز میں نظر آتا ہے۔ برصغیر جنوب ایشیا کی ہر ریاست میں میڈیا کا یہ کردار شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی بدترین شکل ہمیں بھارت میں ملتی ہے‘ جہاں بڑے بڑے لبرل اخبارات اور چینلوں پر کشمیر میںجاری قتل وغارت اور ظلم وبربریت کی خبر تک نہیں ملتی۔ مملکت کی کیفیت بھی زیادہ مختلف نہیں ہے‘ لیکن عوام کو تقسیم کرنے اور طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کے لئے ہر ملک میں حکمرانوں کے مختلف دھڑے مذہبی جنون‘ فرقہ واریت ‘منافرتیں اور تنگ نظر قومی ونسلی تعصبات کی ایک بھرپور مہم میڈیا کے ذریعے چلا رہے ہیں‘ لیکن زہر آلود پراپیگنڈے کے خلاف صحافت میں بھی ایسے افراد اور رجحا نات موجود ہیں‘ جو اس عوام دشمن تخریب کار ی کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کی شاندار مثالیں قائم کررہے ہیں۔ سچ کبھی مٹ نہیں سکتا‘ اسی طرح جہاں معاشرے کے ہر شعبے میں طبقاتی کشمکش موجود ہے ‘وہاں صحافت میں بھی یہ زیادہ واضح ہو کر سامنے آگئی ہے۔صحافت کے محنت کش مزدوروں کو اپنے طبقے کے مختلف حصوںاور پرتوں سے رشتے اور ناتے استوار کرنے ہوں گے ‘اس جدوجہد کو یکجہتی کے ذریعے وہ فتح سے ہمکنار کر سکیںگے۔ ترقی پسند اور انقلابی صحافت کو کبھی کچل کرختم نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میںیہ ضیا آمریت سے ٹکرا گئی تھی۔ اس کا نیا ابھار آنے والے وقت میںعام انسانوں کے حقوق پر ہر وار کے خلاف ناقابل مصالحت طبقاتی مزاحمت کی چٹان بن جائے گا۔