کسی زمانے میں ایک پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔اب درجنوں ہیں۔پرنٹ میڈیا میں کبھی کالم اور صفحات خالی بھی چھپ جایا کرتے تھے ‘اب تل دھرنے کی جگہ نہیںہوتی۔خبروں اور الیکٹرانک میڈیا کی اس یلغار کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ آج کے دور کی صحافت زیادہ شفاف اور اطلاعات زیادہ درست ہوگئی ہیں۔لیکن حالیہ کچھ فیصلوں اور نئی طرز کی تفتیشی ٹیموں کی رپورٹوں کے بعد کچھ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ 71 سال بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان سے'کرپشن کا خاتمہ‘ہونے کو ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں کی تفتیش کے ذریعے انسانی ذہانت ،صلاحیت ،امانت اور دیانت کے معیار بھی بلند ہوئے ہوں۔مالیاتی سرمائے کی معاشرے میں گردش اور مختلف پیشوں میں کام کرنے والوں کی زندگیوں میں اس کے مداخلت سے ہوس اور لالچ میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے عدل، انصاف، اطلاعات و نشریات، تجزیہ نگاری اور سیاسی پرکھ میں حق اور سچ کی اٹھان کی بجائے تنزلی کے آثار زیادہ نظر آتے ہیں۔لیکن پھر اس جنگلی نظام کے بنیادی اصول''Survival of the Fittest‘‘ کی تگ ودو میں ہر کوئی اپنی بقا،آسودگی اور ترقی کے لئے اسی پلڑے میں گررہا ہے جہاں طاقت اور دولت کا جھکائو ہے۔ اس لیے جو ایک ''سچ‘‘ مینوفیکچر کرلیا گیا ہے‘ اسی کا بول بالا ہے۔محروم اور محکوم عوام کو یہ سندیسہ دے دیا گیا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہمارے سامنے ہے اور عنقریب ان کی تمام ذلتوںاور بربادیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایک نظام کے جرائم اور اس کی موضوعی بیماری کو چند افراد تک محدود کرکے پورے نظام کی کالی کرتوں اور بدعنوانی کے عادی اس کے جسم کو پاک اور شفاف بنا کر پھر سے نئے حکمرانوں کی سرپرستی میں زیادہ جبر مسلط کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس ملک کے نظام کے بنیادی سماجی او ر اقتصادی ڈھانچے، اس کی ساکھ اور کردار سرمایہ داری اور دولت پر مبنی ہیں۔ اس دولت کی اکثریتی ملکیت ایک مخصوص اقلیتی طبقے کے پاس ہے۔اس طبقے میںسرمایہ دار،جاگیردار،کالے دھن کے ان داتا،حاکمیت کے بھگوان اور سامراجی اوران کے گماشتے شامل ہیں۔ محنت کش اور غریب طبقے پر مبنی نیچے کی ایک وسیع اکثریت ہے۔ درمیان میں تین کروڑ سے کچھ زیادہ کے درمیانے طبقے کی مختلف پرتیں ہیں۔ اس نظامِ زر میں تمام عوامل،لین دین اور کاروبارِ زندگانی کے لیے سرمایہ درکار بھی ہے اور فیصلہ کن کردار بھی ادا کرتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہاں کا حکمران طبقہ جو تاریخ کے میدان میں حاکمیت پر تاخیر سے وارد ہوا اور جو سامراجیوں کا پیوند کردہ تھا، اپنے جنم سے ہی قلت اور کمینگی کا شکار تھا۔ وہ اپنی کمزور مالیاتی بنیاد اور منافع خوری کی ہولناک ہوس میںکسی صحت مند اور نسبتاً کم بدعنوانی پر مبنی سرمایہ داری کو جنم نہیں دے سکتا تھا۔ وہی ہوا ہے۔ جب کوئی نظام بدعنوان ہو جاتا ہے تو اس میں پنپنے والا پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔اس کا کوئی حصہ بچ نہیں سکتا۔اس نظام کو چلانے کے لئے جو سیاسی، ریاستی، سرکاری،سماجی اور دوسرے تمام شعبے اور ادارے تشکیل پاتے ہیں وہ بھی اس بدعنوانی سے بچ نہیں سکتے۔جلد یا بدیر سبھی اپنے اصولوں کو کاغذی صفحات تک محدود کرکے کرپشن کی اس کھائی میں کود پڑتے ہیں۔ اس دوڑ میں اندھے ہوجاتے ہیں۔اس ہوس میں اپنا ضمیر،اپنا ایمان اور اپنا یقین غرق کردیتے ہیں۔اس طرح ایک بدعنوان معاشرے میں نئی اخلاقی اور سماجی اقدار جنم لیتی ہیں جہاں جھوٹ سچ بن جاتا ہے،فریب ایک فن ہوجا تا ہے اور دھوکہ دہی زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ قرار پاتا ہے۔یہی کامیابی و کامرانی،عظمت وشہرت اور نیک نامی کے فن پارے بن جاتے ہیں۔لیکن اس کرپشن اور لوٹ مار کی جنگ میں پھر حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں باہمی تصادم ناگزیر ہوجاتے ہیں۔سطحی طور پر یہ کبھی داخلی وخارجی یا مالیاتی و اقتصادی یا سیاسی وآئینی پالیسیوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔لیکن جب پیچھے ساری سیاست اور حاکمیت کا پہلا اور آخری مقصد ہی دولت اور طاقت کا حصول ہو تو پھر جلد ہی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ایسے میں حکمرانوں کے لئے معاشرے میں پھیلائی ہوئی بدعنوانی پھر ان کے بھرپور کام آتی ہے۔ابھرے ہوئے نئے دھڑے زوال پذیر دھڑوں کو بدعنوانی کے مقدمات کے جال میں پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں اور سار ی سیاست اسی''کرپشن‘‘کے گرد گھومنا شروع ہوجاتی ہے۔لو گ مہنگائی سے جانیں ہی کیوں نہ گنوالیں، لاعلاجی سے موت کی وادی میں ہی کیوں نہ اُترتے رہیں، ناخواندگی کے اندھیرے میں ہی کیوں نہ برباد ہو رہے ہوں،بھوک اور افلاس سے نیم مردار حالت میں بکھرے ہی کیوں نہ رہیں ‘لیکن سیاست ان ایشوز پر نہیں کرپشن پر ہی ہوتی رہے گی۔آخریہ بھی اسی نظام کا تقاضا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں بدعنوانی کی شرح معلوم کرنے کے لئے اس سماج میں عمومی طور پر پھیلی ہوئی ذلت و محرومی پر ایک سر سری نظر ڈالناہی کافی ہوتا ہے۔ وسیع تر پھیلی ہوئی ذلت میں نچلی سے نچلی سطح پر کسی نہ کسی طرح کی کرپشن کرناعام انسانوںکے زندہ رہنے کی مجبوری بن جاتی ہے۔پھر یہ اوپر بڑھتے بڑھتے حجم میں بڑی ہوتی چلی جاتی ہے اور بیمارسرمایہ داری میں وسیع تر منافع خوری کا ایک لازمی جزو بن جاتی ہے۔ اس کو روکنے اور معاشرے کو چلانے والے ادارے جتنے سخت اور جابر ہوتے ہیں‘ ان میں کرپشن کے ریٹ بھی اتنے ہی بھاری ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبر کی انتہائوں سے بھی کرپشن ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی ہے۔ پھر چاہے وہ ہٹلر کی فسطائیت ہو یا مودی اور کسی دوسرے مذہبی عقیدے کے جابر کی فرقہ وارانہ جارحیت کی حاکمیت‘ سبھی اداروں میں کرپشن کے خلاف خصوصی محکمے موجود ہیں۔مختلف اداروں کے ترجمان ہمیں بار بار بتاتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے اداروں میںکرپشن کے سدباب کے کتنے اقدامات کرتے ہیں۔ایسے محکموں کا قیام ہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے میں کوئی ادارہ ایسا نہیں ہوسکتا جس میں کرپشن نہ ہو۔آخر یہ اس نظام کا ناگزیر حصہ جو ٹھہری۔اب نواز شریف اور زرداری کو کرپشن میں سزائیں دینے کا بھرپور عمل جاری ہے۔جس طبقے سے یہ تعلق رکھتے ہیں اس کے کردار ، تاریخ اور کارکردگی میں اس بدعنوانی کا ہونا کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی زوال اور حاکمیت کی لڑائی میں پسپائی اختیار کرنے والی شخصیات اور امرا کی بدعنوانی کو ختم کرکے معاشرے کی رگوں، شریانوں اور خلیوں میں سرایت کردہ کرپشن کم ہو جائے گی ؟یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور محرومی میں تیز ترین ا ضافے کو کرپشن کے واویلے سے زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
لیکن کرپشن کی اس سیاست میں گالم گلوچ اور غنڈہ رجحانات کا اظہار موجودہ حکمران طبقات کے کردار اور صلاحیتوں کے معیارکو منظر عام پر آشکار کررہا ہے۔ اگر ہر طرف ‘سب اچھا‘ کی آواز ہے،ہر طرف سے مثبت خبروں کی بھرمار ہے ‘تو پھر ہر مسئلہ ہی حل ہو چکا ہے۔ کرپشن کے اختتام کا جشن شاید شروع ہوچکا ہے۔ لیکن یہ جشن نہیں بلکہ اس ملک کے 85فیصد عام معصوم محنت کرنے والے امانت دار انسانوں کی محرومی اور بے بسی کا تماشا دیکھا جارہا ہے۔ عام انسان نسلوں انتظار کے بعد بھی انصاف، تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات سے عاری ہیں۔ زندگی ایک جبرِ مسلسل ہے۔جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی آمریتیں، نیم فوجی حاکمیت ہو یا لبر ل مذہبی پارٹیوں کی اقتدار‘ یہاں کے حکمران طبقات نے ذلت اور محرومی سمیت کرپشن کو یہاں کے عوام کا مقدر بنا کر رکھ دیا ہے۔جب کوئی نظام ہی کرپٹ ہو جائے تو اسی کے گلے سڑے ادارے بھلا کرپشن کیسے ختم کرسکتے ہیں۔حکمرانوں کے یہی ٹولے ‘پارٹیاں اور وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔ان کی لڑائیاں جھوٹی ہیں۔کرپشن کے اختتام کے لئے پورے نظام اور اس کے حکمرانوں کے تمام دھڑوں کی سیاسی حاکمیت اور مالیاتی طاقت کا اختتام چاہیے۔صرف نوجوان اور محنت کشوں کی تحریک ہی یہ ختم کر سکتی ہے۔ انقلاب کا انصاف حکمرانوں کے ایوانوں میں نہیں کھیتوں کھلیانوں فیکٹریوں کارخانوں گلیوں اور بازاروں میں ملا کرتا ہے۔