"DLK" (space) message & send to 7575

نودولتیوں کا بجٹ

23 جنوری کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جانے والا ''مِنی بجٹ‘‘ بنیادی طور پر اُس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جس میں انسانی محنت اور مزدور طبقے و محنت کش عوام کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔ آج کی سیاست اور معاشرے پر مسلط ذہنیت میں سرمائے اور دولت کے دھنوانوں اور سرمایہ کاروں کو ہی ہر فن مولا اور ہر چیز کا سرچشمہ سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ پہلا بجٹ ہے جس نے رسمی یا کاغذی طور محنت اور سرمائے کی کشمکش پر مبنی اس سماج میں مکمل طور پر سرمائے کی کاسہ لیسی کر دی ہے۔ وزیر خزانہ کی تقریر کے تقریباً ہر جملے میں سرمائے کے تقدس اور اس کی عظمت کو سلام پیش کیے گئے۔ بارہا فرمایا گیا کہ ''سرمائے پر ٹیکس لگایا جانا ایک جرم ہے‘‘۔ اس بجٹ کی تمام تر مراعات، اس کا سارا زور اور مقصد سرمایہ دارانہ منافع خوری کو تقویت دیتا ہے۔ عمران خان صاحب نے اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں مسلسل سرمایہ کاروں کو دولت کمانے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ ترکی میں سرمایہ داروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے یہ تک کہہ دیا کہ ''ہمارے ملک میں آپ کو منافع حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے‘‘۔ اسی سوچ کے تحت اس بجٹ میں تمام مراعات سامراجی اجارہ داریوں، قومی سرمایہ داروں، درمیانے کاروباریوں، بڑے اور درمیانے زمینداروں اور سب سے بڑھ کر کالے دھن کے ان داتائوں کے لیے وقف کر دی گئیں ہیں۔ لیکن یہ شاید پہلا منی بجٹ ہو گا جس میں مزدور کی کم از کم اجرت کا کوئی ذکر تک نہیں۔ محنت کشوں کی پینشنوں، سوشل سکیورٹی کے حقوق، علاج اور ماضی میں حاصل دوسری بنیادی سہولیات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بے زمین مزارعین اور غریب دہقانوں کے لیے زرعی شعبے میں کیے گئے اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے آڑھتیوں، جاگیرداروں اور درمیانی ملکیت کے زمینداروں کو ہی فائدہ ہو گا۔ اگر زرعی پیداوار بڑھے گی تو تب بھی دہقانوں اور مزارعین کی حالت بد تر ہی رہے گی۔ اناج اگا کر بھی ان کے گھروندوں سے بھوک نہیں مٹے گی۔ کپاس کی فصل پر اپنا پسینہ بہا کر بھی ان دہقانوں کے خاندان مکمل تن ڈھانپنے سے محروم ہی رہیں گے۔ اور نہ صرف حالیہ بجٹ بلکہ پوری اقتصادی پالیسی کا مقصد وہ ''موافق حالات‘‘ پیدا کرنا ہیں‘ جن میں سرمایہ دار یہاں سرمایہ کاری کریں۔ اب ان ''موافق اقدامات‘‘ کی انتہا ہو چکی ہے۔
یہ مزدور دشمن ذہنیت 24 جنوری کو بے نقاب ہو گئی‘ جب پی آئی اے اور پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن کے مزدوروں سے یونین سازی کا حق چھین کر لازمی سروس نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مستقل ملازمتوں و اجرتوں کا خاتمہ، ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدوروں کا دیہاڑی کی بنیاد پر استعمال کرنا، یونین سازی پر پابندی اور مزدوروں کو منظم کرنے کو ایک جرم قرار دینے جیسے اقدامات اب شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس نیولبرل پالیسی کے معنی مزدور طبقے کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے مترادف ہیں۔ اس وقت جو پرانی حکومتوں کی کم از کم اجرت 15 ہزار مقرر تھی‘ اس میں گزارہ کرنا نیم مرگ حالات میں رہنے کے مترادف ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ نجی شعبے میں یہ کم از کم اجرت بھی مزدوروں کی بھاری اکثریت کو میسر نہیں۔ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سرمایہ داروں نے کٹوتیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ تمام سرکاری ادارے کھل کر مالکان کی حمایت کرتے ہیں۔ مزدوروں کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ این آئی آر سی میں مقدمات اتنے طویل ہو جاتے ہیں کہ مزدور زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ لیکن سالہا سال ان کی نوکری کی بحالی نہیں ہوتی۔ حکومت اس بجٹ اور دیگر پالیسیوں‘ بیانات اور اقدامات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ سامراجیوں اور سرمایہ داروں کی زیادہ بڑی گماشتہ ہے‘ اور وہ ان انتہائوں پر جا کر مالیاتی سرمائے کے مفادات کے لیے اقدامات کرے گی‘ جہاں سرمایہ داروں کی روایتی مسلم لیگ نواز بھی نہیں جا سکتی تھی۔
ویسے اس بجٹ نے مسلم لیگ نواز اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں کو بھی شل کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کی تنقید پھیکی اور بے معنی محسوس ہوتی ہیں۔ اس بجٹ کے بارے میں ان کے بیانات میں زور نہیں کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کے پیش کردہ اس بجٹ کے اعلانات پر سرمائے کے منجھے ہوئے سبھی کھلاڑی شادیانے بجا رہے ہیں۔ ہر سرمایہ دار ادارہ کھل کر اب عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کی تعریف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کی روایتی اور پرانی پارٹیوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ کم از کم کاغذی اور لفظی حد تک ہی سہی مزدوروں کی مانگوں کا ذکر تو کر دیا کرتی تھیں‘ اور سرمایہ دار اس انتہا پسندی تک جانے سے کچھ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اجتناب بھی کرتے تھے۔ لیکن یہاں تو اب حکومت نے ایک ''ننگ دھڑنگ‘‘ قسم کی معاشی گماشتگی کا مظاہرہ اس بجٹ میں کر دیا ہے۔ اس میں تحریک انصاف کی متوسط طبقات میں پائی جانے والی حمایت کی موجودہ نفسیاتی کیفیت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایسے ادوار‘ جب سماج ایک نسبتاً جمود میں ہو اور محنت کشوں کی بڑے پیمانے پر تحریکیں نہ چل رہی ہوں‘ متوسط طبقے کی سوچ کا وہ پہلو جس میں وہ حکمران طبقات کی پیروی کرکے امیر ہونے اور بالادست طبقات کا حصہ بننے کی خلش رکھتا ہے‘ شعور میں زیادہ عود کر آتا ہے۔ عمران خان صاحب اور ان کے وزرا اسی سوچ کو پروان چڑھا کر بے دریغ مزدور دشمن پالیسیوں پر گامزن ہیں۔
لیکن اس بجٹ میں نان فائلرز اور کالے دھن کے جغادریوں کی جن مراعات کا اعلان کیا گیا‘ وہ بھی تحریک انصاف پارٹی کی جزئیات اور اس کی سماجی اور مالیاتی بنیادوں کی غمازی کرتا ہے۔ اگر تحریک انصاف اور نواز لیگ کا موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف میں نودولتیوں کی زیادہ بڑی اکثریت ہے۔ جبکہ نواز لیگ میں روایتی سرمایہ داروں اور کاروباریوں کا غلبہ پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جہاں نواز لیگ نے نان فائلرز پر پابندی لگائی تھی‘ وہاں اس مِنی بجٹ میں ایک مبہم مگر ٹھوس ایمنسٹی سکیم بھی شروع کی گئی۔ کالے دھن کو نہ صرف تسلیم کیا گیا‘ بلکہ اس کے فنانس کردہ سیاستدانوں نے اپنی طاقت کو اس مِنی بجٹ میں منوا لیا ہے۔ نودولتیے کل تک متوسط طبقے کے سرکاری و غیر سرکاری معیشتوں کے کاروباری تھے۔ ان کے پاس ''اچانک‘‘جن طریقوں اور وارداتوں سے دولت آئی‘ اس کی وجہ سے اس کے تحفظ کا مسئلہ ابھرا‘ اور اس دولت کے تحفظ کے لیے جو طاقت درکار تھی وہ سیاست کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔ اور ایسی پارٹی جس میں پرانے دھنوانوں کا قبضہ کم ہو اور نودولتیوں کی گنجائش ہو تو پھر یہ ابھری اور ابھاری جانے والی ''تحریک انصاف‘‘ ہی تھی۔ اس لیے سیاسی پالیسیاں ہوں یا سماجی رویے، ''اخلاقیات‘‘ ہوں یا ''اقدار‘‘ ، پارٹی میں آمریت ہو یا پھر قیادت کی اندھی اعتقادی تقلید‘ متوسط طبقے کی اسی نفسیات اور نودولتیوں کے لیے تحریک انصاف ایک آئیڈیل پارٹی بنی تھی۔ متوسط طبقے کے بارے میں ٹراٹسکی نے لکھا تھا ''یہ طبقہ صرف ایک دیوتا کو مانتا ہے اور وہ دیوتا طاقت ہے‘‘۔ دولت اور طاقت کے اس کھیل میں پاکستان کا روایتی سرمایہ دار طبقہ جمہوریت لانے اور جدید صنعتی معاشرہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔ ایسے میں ایک خلا ابھرتا ہے۔ جب محنت کشوں کی تحریکیں پسپا ہو جائیں، بائیں بازو کا ایک عارضی انہدام ہوا ہو‘ تو پھر ایسے خلا کو اسی قسم کے حادثاتی عناصر اور پارٹیاں پُر کرتی ہیں جیسی اس وقت برسر اقتدار ہیں۔ ایسی سطحی سوچ رکھنے والے دوسرے شعبوں کے ہیرو ہی لیڈر بنتے ہیں‘ لیکن جس بوکھلاہٹ اور خلفشار سے یہ پارٹی حکمرانی کر رہی ہے اس کا انہدام ناگزیر ہے۔ ایسی صورتحال میں پھر ایک سیاسی خلا ابھرے گا۔ مسلم لیگ اور حکمرانوں کی دوسری پارٹیاں پہلے ہی زوال کا شکار ہیں۔ یہ اب محض مالیاتی سرمائے کے کینوس پر گزرے ہوئے وقت کے خاکے ہیں۔ نئے سیاسی خلا میں آج کا نظر انداز اور ظاہری طور پر پسپا‘ محنت کش طبقہ ابھرے گا‘ کیونکہ اس مالیاتی سیاست کی غلاظت سے لبریز سطح کے نیچے محنت کش عوام کا ایک لاوا بھڑک رہا ہے۔ بس ہمت اور جگہ ملنے کی دیر ہے یہ آتش فشاں پھٹ کر رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں