'سادگی‘ اور 'بچت‘ کے دعوے چند مہینوں میں ہی فلاپ ہو چکے ہیں۔ 'احتساب‘ کی فلم، جو کئی دہائیوں سے مختلف ناموں اور کرداروں کے ساتھ چلائی جا رہی ہے، بھی تکرار اور یکسانیت کا شکار ہو کر اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ رہی سہی کسر ملک کے طول و عرض میں جاری جبر اور قتل و غارت کو منظر عام پہ لانے والے سانحہ ساہیوال جیسے واقعات پوری کر رہے ہیں۔ عوام پر بار بار آشکار ہو رہا ہے کہ اِس نظام میں کچھ 'تبدیل‘ نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوپر سے کتنے ہی نان ایشوز مسلط کیے جاتے رہیں، دیوہیکل پروپیگنڈا کی یلغار میں کیسے کیسے لوگوں کو مسیحا بنا کے پیش کیا جاتا رہے، لوگوں کی سوچ اور شعور کو کتنا ہی مجروح اور مفلوج کر دیا جائے... لیکن حقیقی تضادات اپنا اظہار کر کے رہتے ہیں۔ نظام کے بحران کو جعلسازیوں کے نیچے سدا دبایا نہیں جا سکتا۔ اور جب یہ بحران کسی بے قابو دیو کی طرح سر اٹھاتا ہے تو حکمرانوں کی اپنی نورا کشتیاں، لا یعنی بحثیں اور دوسرے کرتب، جن میں لوگوں کو محو رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے، بہت چھوٹے اور بھونڈے لگنے لگتے ہیں۔
معیشت کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام پر ہر روز مہنگائی کے نئے حملے جاری ہیں۔ افراطِ زر، جس کی شرح جنوری میں 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، مسلسل بڑھ رہا ہے اور پانچ سال کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں حقیقی اضافہ ان سرکاری اعداد و شمار سے کہیں بڑھ کے ہے۔ مثلاً پچھلے ماہ سبزیوں اور پھلوں جیسی فوری استعمال کی غذائی اجناس کے نرخوں میں اوسطاً 16.6 فیصد اضافہ ہوا۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اِس سے بھی زیادہ ہے۔ سردیوں میں گیس کے بِلوں نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ماضی میں چند سو یا چند ہزار روپے کے بِل دینے والے عام صارفین کو دسیوں ہزار کے بِل بھجوائے گئے ہیں۔ جبکہ کھاد، ٹیکسٹائل اور سی این جی سیکٹر کے بڑے مگر مچھوں کو واجبات کی مد میں 208 ارب روپے 'معاف‘ کر دئیے گئے ہیں۔ لوگوں کے احتجاج پر وزیر پٹرولیم نے برملا کہہ بھی دیا ہے کہ گیزر وغیرہ کا استعمال عیاشی کے زمرے میں آتا ہے‘ جبکہ وزیر اعظم صاحب نے کمال دردِ دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ بِلوں کے معاملے کی 'تحقیقات‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ شاید علت و معلول کے اِتنے سادہ سے معاملے کے ادراک سے عاری ہیں کہ جب گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ کر دیا جائے تو بِل بھی زیادہ ہی آتے ہیں۔
دوسری جانب سٹیٹ بینک کی جانب سے 0.25 مزید اضافے کے ساتھ شرح سود 10.25 فیصد ہو گئی ہے‘ جو 6 سالوں کی بلند ترین شرح ہے‘ لیکن افراطِ زر اِس سخت مانیٹری پالیسی کے قابو سے باہر نظر آتا ہے جس کی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ، مرکزی بینک کی جانب سے بڑے پیمانے پر نوٹوں کی چھپائی اور حکومتی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ حکومت نے مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں سٹیٹ بینک سے پچھلے سال کی نسبت 4 گنا زیادہ قرضہ لیا‘ جو تقریباً 4 ہزار ارب روپے بنتا ہے‘ جبکہ مرکزی بینک سے لیے گئے مجموعی قرضوں کا حجم 7500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ یوں شرح سود میں اضافے سے معیشت کی شرح نمو کے تخمینے مزید نیچے آ رہے ہیں اور مہنگائی کا مسئلہ الٹا زیادہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کی شرح نمو کی پیش بینی 0.3 فیصد کمی کے ساتھ 2.4 فیصد کر دی ہے۔ اگر آبادی میں اضافے اور نئے روزگار کی تخلیق کی مطلوبہ شرح کے مابین موازنہ کیا جائے تو یہ 'شرح نمو‘ معاشی سکڑائو کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کا ناگزیر مطلب قوت خرید میں گراوٹ اور بیروزگاری میں اضافہ ہے‘ جو واضح نظر آ رہا ہے۔ یوں یہ 'سٹیگ فلیشن‘ کی کیفیت بنتی ہے جس میں حالات پچھلے کچھ سالوں کی نسبتاً بلند شرح نمو (جس میں اگرچہ اس تناسب سے نیا روزگار پیدا نہیں ہوا) سے بھی بد تر ہونے کی طرف جائیں گے۔ ترقیاتی بجٹ کم و بیش ختم کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں چھانٹیوں کا خاموش عمل جاری ہے اور جس بڑے پیمانے پر نجکاری کے لئے پَر تولے جا رہے ہیں وہ ان اداروں کو پرزہ پرزہ کر دینے کے مترادف ہے۔ بچی کھچی حکومتی سبسڈیوں کو انتہائی سنگدلی سے 'خسارے‘ قرار دے کے ختم کیا جا رہا ہے۔ خزانے کی حالت یہ ہے کہ جاری مالی سال کے از سر نو بجٹ میں 3.6 ہزار ارب روپے (68.2 فیصد) قرضوں پر سود اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو جائیں گے‘ جس کے بعد وفاقی حکومت کے پاس منفی 632 ارب روپے بچیں گے!
سٹیٹ بینک نے تنبیہہ کی ہے کہ آنے والے عرصے میں معیشت کو بلند بجٹ خسارے، کرنٹ اکائونٹ خسارے اور افراطِ زر کا سامنا بدستور کرنا پڑے گا۔ تمام تر کٹوتیوں کے باوجود بجٹ خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 6.6 فیصد کی ریکارڈ سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ ان حالات کے پیش نظر 'S & P‘(Standard & Poor's Financial Services) نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مزید گرا کے 'B-‘ کر دی ہے جو سب سے بالائی 'AAA‘ ریٹنگ سے چھ درجے نیچے ہے۔ پاکستان کے لئے موڈی (Moody's) کی کریڈٹ ریٹنگ منفی آئوٹ لُک کے ساتھ B3 تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اندرونی قرضوں کی طرح بیرونی قرضوں کے سود کا بوجھ بھی مزید بڑھے گا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا مسئلہ سنگین ہے۔ دسمبر 2018ء میں یہ خسارہ پچھلے ماہ کی نسبت 37.3 فیصد اضافے کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر رہا۔ روپے کی قدر میں تیز رفتار گراوٹ کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ آخری تجزئیے میں صنعتی پسماندگی کا مسئلہ ہے جو پھر یہاں کی تاخیر زدہ سرمایہ داری کے ساتھ جڑا ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی نے اسے شدید تر کر دیا ہے۔ ہر مہینے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کے بیرونی خسارے کا سامنا ہے‘ جسے پورا کرنے کے لئے 'دوست ممالک‘ سے قرضوں پہ قرضے لیے جا رہے ہیں۔ پہلے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین تین ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا‘ اب چین سے مزید 2.5 ارب ڈالر کا قرضہ ملنے کی تازہ خبر گردش کر رہی ہے۔ ان قرضوں پہ بھی سود ادا کرنا پڑے گا‘ لیکن بحران جتنا شدید ہے اس کے پیش نظر ان طریقوں سے بھی اس کو چند ماہ تک ہی مزید ٹالا جا سکتا ہے۔ 2019ء میں واجب الادا بیرونی قرضے‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر کا 160 فیصد بنتے ہیں۔ یعنی یہ ذخائر، جنہیں مذکورہ بالا قرضوں کے ذریعے 8 ارب ڈالر کے آس پاس ظاہر کیا جا رہا ہے، عملی طور پہ منفی میں ہیں۔ اب دبئی میں ہونے والے دنیا بھر کے حکمرانوں کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آئوٹ 'پیکیج‘ کی استدعا کی ہے‘ جس کے جواب میں دولت والوں کی اِس نمائندہ نے معیشت کو 'ڈسپلن‘ میں لانے کے لئے سخت اقدامات کے بدلے میں قرضہ دینے کا گرین سگنل دیا ہے۔ اِن 'سخت اقدامات‘ میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی وغیرہ جیسے معاملات شامل ہو سکتے ہیں‘ جن کا عوام کے لئے مطلب مزید مہنگائی اور بد حالی ہے۔
مجموعی طور پر یہ دیوالیہ پن کی کیفیت بنتی ہے۔ اِس حکومت کی ساکھ، ملک کے حالات اور عالمی معیشت کی صورتحال کے پیش نظر یہاں کسی بڑی سرمایہ کاری کا امکان نہیں ہے جو معیشت کو اِس بحران سے نکال سکے۔ سی پیک کی پرواز بھی بس یہیں تک تھی۔ بس ہلڑ بازیاں ہیں جو یہ کٹھ پتلی حکمران اور نام نہاد حزب اختلاف‘ دونوں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اصلاح پسندی اس لئے اتنی مضحکہ خیز ہے کہ نظام میں سنجیدہ اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ میڈیا پر کچھ اینکر خواتین و حضرات اور دانشوروں کی طرف سے حکومت پر کی جانے والی بھونڈی تنقید کا مقصد بھی حقیقی تنقید اور متبادل کی بات کو پس پشت ڈالنا ہے۔ لیکن حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں‘ وہاں اِس نظام کو برباد کر ڈالنے والی طبقاتی جنگ کے طبل حساس سماعتوں کو صاف سنائی دے رہے ہیں!