آسٹریلوی نژاد''وکی لیکس‘‘کے بانی جولین اسانج کو لندن میں موجود ایکواڈورکے سفارت خانے سے برطانوی پولیس نے جس ''مہذب‘‘سفاکی اور بے دری سے گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی میں پھینکا اس سے برطانوی سامراجی ریاست اور عمومی طور پر ان''مہذب‘‘سرمایہ دارانہ ریاستوں کا کردار ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوا ہے۔یہ گرفتاری انہی انگریز سامراجیوں کی بنائی ہوئی یہاں کی پنجاب یا ہریانہ کی پولیس کے طریقۂ واردات سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔جولین اسانج اور''وکی لیکس‘‘کو زیادہ شہرت اپریل 2010ء میں ملی جب انہوں نے عراق میں2007ء میں ہونے والے امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کی ویڈیو منظر عام پر پیش کردی تھی۔اس ویڈیو میں امریکی اپاچی ہیلی کاپٹروں کے بغداد میں2007ء کے اس حملے کی فوٹیج تھی جس میں خبررساں ایجنسی رائٹرز کے دو صحافیوں سمیت بارہ افراد کا بہیمانہ قتل کیاگیا تھا۔اس''خبر‘‘کے شائع ہونے کے چند ہفتے بعد اگست 2010ء میں سویڈن کے استغاثہ کے محکمہ نے جولین اسانج کے خلاف ریپ اور جنسی حملے کا الزام لگا کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے‘ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ سویڈن سیکنڈ ے نیویا اور یورپ کی ریاستیں جو انسانی حقوق‘ جمہوریت‘ آزادی اور مہذب ہونے کا تاثر رکھتی ہیں درحقیقت کس طرح سامراجی اطاعت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرنے والی کسی سنجیدہ کاوش اور ان کے مظالم کی بے نقابی میں گماشتگی کا کردار ادا کرتی ہیں۔
اسانج کو پہلے بھی گرفتار کیا گیا‘ پھر اس کی ضمانت ہوگئی لیکن2012ء میں اسانج کے خلاف سامراجیوں کی مہم تیز ہوئی اور اس کو گرفتار کرکے پہلے سویڈن بھیجنے اورپھر وہاں سے امریکی درخواست پر مقدمات اور سزا کے لیے امریکہ بھیجے جانے کا منصوبہ بھی اسانج نے پکڑ لیا تھا۔جہاں دنیا بھر کی سرمایہ دارنہ ریاستیں سامراجی اطاعت میں اسانج کی دشمن بن گئی تھیں ‘ایسے میں اسانج اور ایکواڈور کے سوشلسٹ صدر رافیل کورایا کے آپسی روابط بڑھے اور اسانج نے لندن میں ایکواڈو ر کے سفارتخانے میں پناہ لی۔ایک غریب ملک کی چھوٹی سے ایمبیسی میں سات سال کا طویل عرصہ گزارنا اسانج کے لیے کسی قیدتنہائی سے کم نہ تھا‘ لیکن کم از کم اس کو کسی امریکی''گوانتاناموبے‘‘جیسی اذیت گا ہ میں تشدد کا سامنا نہیںکرنا پڑا تھا۔لیکن سامراجیوں نے اسانج کا پیچھا نہیں چھوڑا۔پچھلے سال انتخابات میں رافیل کورایا نے حصہ نہیں لیا اور اس کی پارٹی کے ایک فرد لینن مورینو کو صدر بننے کا موقع مل گیا۔اس کے صدر بنتے ہی داخلی اور خارجی پالیسیاں تبدیل ہونا شروع ہوئیں۔اورآخر کار سامراجی گماشتگی میں سودا طے ہوا کہ آئی ایم ایف مورینو کی حکومت کو 14ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج دے گا اور ایکواڈور کی حکومت اسانج کو سامراجیوں کی سفاک ریاستوں کے حوالے کردے گا۔اس کا انکشاف کافی عرصہ پہلے خود وکی لیکس کر چکا تھا۔11 اپریل کو ایکواڈور کے سفیر نے برطانوی پولیس کو بلوایا اور انہو ںنے جو اسانج کے ساتھ کیا وہ سارے زمانے نے دیکھا۔اب دو مئی کو ایک معمولی جرم میں پیشی ہے لیکن اصل خطرہ اسانج کو امریکہ اور سویڈن کی تحویل میں دیئے جانے کا ہے۔
گرفتاری کے چند گھنٹے بعد جب اسانج کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس انگریز جج نے اسانج کے بارے میں جو ریمارکس دیئے وہ برطانوی اور دوسری سرمایہ دارانہ ریاستوں کی عدلیہ کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔یہ ان کے تعصب اور حکمرانوں کے مطیع ہونے کے کردار کو بے نقاب کرتے ہیں۔اگر حقیقی طور پر قانون لاگو ہوتا تو اس کیس میں اسانج نے چند ہفتے کی سزا کے بعد رہا ہوجانا تھالیکن ایک طرف برطانیہ امریکی سامراج کی گماشتہ ریاست ہے تو دوسری طرف آسٹریلیا کی ریاست بھی سامراجی کاسہ لیسی میں پیچھے نہیں ہے۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے اسانج کی کسی ٹھوس مدد سے انکار کردیا ہے۔یہ ہے ان ترقی یافتہ ممالک کی قومی سا لمیت اور اپنے باشندوں سے متعلق ذمہ داری کا حقیقی کردار۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی اور عالمی سامراجیوں کو اسانج اتنی شدت سے کیوں درکار ہے؟ سب سے پہلے تو وہ اسے ایک مثال بنانا چاہتے ہیں کہ کوئی دوبارہ سامراجیوں کے جنگی‘ معاشی اور سیاسی جرائم سے بے نقاب کرنے کی کوشش مت کرے۔امریکی فوج کی خاتون چیلسی میننگ‘ جس نے اسانج کو کافی خفیہ مواد فراہم کیا تھا‘کو اس لیے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے کیونکہ اس نے اسانج کے خلاف گواہی دینے سے انکار کردیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی حریف ہیلری کلنٹن کے امریکی ملٹری صنعتی کمپلکس کے سیٹھوں سے رابطوں کو بے نقاب کرنے پر وکی لیکس کی بہت تعریفیں کر ڈالی تھیں۔اس کی تقریروں کا یہ جملہ کہ'' وکی لیکس‘ آئی لَو وکی لیکس ‘‘بار بار مختلف چینلوں پر آج دکھا یا بھی جارہا ہے لیکن آج ٹرمپ وکی لیکس اور جولین اسانج کے بارے میں انجان ہونے کا ناٹک کررہا ہے جبکہ اس کی اپنی انتظامیہ خونی درندوں کی طرح اسانج پر جھپٹنے کے لئے بھڑک رہی ہیں۔
کارپوریٹ میڈیا تو امریکہ اور یورپ کے انسانی حقوق‘ جمہوریت اور آزادی کے علمبردار کے پراپیگنڈے کو کبھی مانند نہیں پڑنے دیتا لیکن یہ جولین اسانج اور وکی لیکس ہی تھے جنہوں نے انتہائی دشواریوں اور محنت سے وہ ٹھوس حقائق نکال کر دنیا بھر کے شہریوں کے سامنے پیش کیے کہ کس طرح انہی''عظیم‘‘مقاصد کے نام پر انہو ں نے غریب اور مظلوم عوام پربے پناہ ظلم ڈھائے۔افغانستان‘ عراق‘ شام‘ لیبیا‘ یمن اور دوسرے ممالک میں فوجی جارحیت کرکے ان سماجوں کو تاراج کیااور انسانی حقوق کو ایک بربریت سے کچلا۔اب تک وکی لیکس 30 لاکھ ایسے سفارتی خفیہ پیغامات شائع کرچکا ہے جن میں یہ جنگی جرائم ثابت ہوتے ہیں۔برطانوی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جریمی کوربن نے اسانج کی امریکی تحویل میں دینے کی مخالفت کی ہے۔اسی طرح برطانوی بائیں بازو نے بھی کوربن کے اس بیان کی حمایت کی ہے‘جبکہ کچھ ''فیمی نسٹ‘‘ممبران پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسامے کو یہ پٹیشن بھیجی ہے کہ اس کوجنسی زیادتی کے الزامات میں سویڈن بھیج دیا جائے‘لیکن اسانج کی وکیل کے مطابق پٹیشن دینے والیاں اتنی بھی بھولی نہیں ہیں کہ وہ اس خطرے سے آگاہ ہی نہ ہوں جس کااظہار طویل عرصے سے خود اسانج کرتاآیا ہے کہ اسے سویڈن کی تحویل میں دیئے جانے کا مطلب محض'' وایا‘‘سٹاک ہوم امریکہ بھیجا جانا ہے۔یہ بھی شاید کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ یہاں بہت بڑے بڑے ناموں والے میڈیا ہاؤسز اورنوآبادیاتی نفسیات رکھنے والا دانشور طبقہ سامراجی اداروں کی ہر خبر اور تجزیہ کو آخری سچ سمجھتا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے جولین اسانج کے خلاف ایک بیہودہ کھلواڑ اور کردار کشی کی یلغار جاری کررکھی ہے۔
ٹراٹسکی نے ایک بار لکھا تھا کہ(کارپوریٹ) میڈیا عمومی طور پر معمول کے واقعات اور حالات پر سچی خبریں اور تجزیے پیش کرتا ہے۔اس کا مقصد عوام کا اپنے پر اعتماد پکا کرنا ہوتا ہے۔لیکن جب بھی کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے کہ جس سے سرمایہ دارانہ مفادات کو خطرہ لاحق ہو تو یہی میڈیانہ صرف جھوٹ بولتا ہے بلکہ بہتان طرازی سے عوام کی نفسیات میں ایسے افراد کے لئے منافرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔آج اکانومسٹ سے لے کر الجزیرا تک سبھی جولین اسانج کے درپے ہیں۔پاکستان میں میڈیا اور بڑے بڑے صحافیوں نے ایک پرسرارخاموشی تان رکھی ہے۔اسانج نے صرف وہی کیا ہے جو کوئی بھی پیشہ ور صحافی اور انویسٹی گیٹو جرنلزم میں مہارت رکھنے والا کرتا ہے۔عمومی طور پر ایسے صحافی کو بڑی ترقیاں اور انعام ملتے ہیں۔بڑے بڑے دہشت گردوں‘ ڈاکوئوں‘ جرنیلوں ‘ گوریلا لیڈروں اور ریاستی اداروں کے سرابرہوں سے خبرنکلوا کر شائع کرناہی ان کا پیشہ ہے۔لیکن اسانج نے توسب سے بڑی طاقت کو چھیڑ ا ہے کہ جس کے سامنے بڑے بڑے صحافی‘ لکھاری‘ تجزیہ نگار‘ سیاست دان اور جرنیل سرنگوں ہیں۔جن کے ضمیر نیلام ہیں اور جو پیسے اور طاقت کے اس نظام کے سامراجی دیو کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔جولین اسانج کی اس جرأت کی خاطر اس کی حمایت میں ہر باضمیر صحافی‘ سیاسی کارکن‘ طالبعلم اور باشعور انسان کو نکلنا ہوگا۔اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج اور اس کی رہائی کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔