اٹھارہ سال کی جارحیت اور قبضے کے بعد امریکی سامراج کو کوریا، ویتنام، عراق اور شام کے بعد افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے۔ اس شکست کی بد حواسی اور نامرادی کا اندازہ شہری آبادی پر ان کی وحشیانہ بمباری اور نام نہاد 'امن مذاکرات‘ سے ہوتا ہے جو ناکامی سے دوچار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سہ ماہی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ ''پہلی دفعہ طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کی نسبت امریکی اور حکومتی فورسز کے ہاتھوں زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ ایک طرف فضائی بمباری سے یہ خونریزی کر رہا تو دوسری طرف طالبان سے امن معاہدے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ طالبان 2001ء میں اپنی برطرفی کے بعد سے اِس وقت ملک کے زیادہ وسیع حصے پر قابض ہیں۔ 2019ء کے پہلے تین مہینوں میں بین الاقوامی اور حکومتی فورسز کے ہاتھوں 305 شہری ہلاک ہوئے جبکہ مسلح گروہوں کے ہاتھوں 227 شہری جاں بحق ہوئے۔ 2017ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کھلی چھوٹ کے بعد سے امریکی افواج کے بے دریغ حملوں میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ امریکی ایئر فورس سینٹرل کمانڈ کے مطابق سال 2018ء میں امریکہ نے افغانستا ن پر 7362 بم گرائے جو 2010ء کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔
سامراجی حملہ آور اور سابقہ جنگجو‘ جو آج طالبان بن چکے ہیں‘ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یہ جنگجو وہ وحشی تھے جنہیں چالیس سال پہلے امریکی سامراج نے کچھ خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر تخلیق کیا اور ان کی تربیت کی۔ یہ منصوبہ سی آئی اے کی ایجاد تھی۔ یہ ان کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن تھا جو اس انقلاب کو کچلنے کے لیے شروع کیا گیا‘ جس نے پہلی مرتبہ افغانستان کے غریب اور محکوم عوام کو خوشحال مستقبل کی امید کی کرن دکھائی تھی۔27 اپریل 1978ء کا ثور انقلاب اس ملک، جو دو صدیوں تک سامراجی گریٹ گیم کا خونیں اکھاڑہ بنا رہا، کے محروم اور استحصال زدہ عوام کے لیے آگے کی جانب ایک جست تھا۔
ان ڈرامائی واقعات کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کر کے ریڈیکل اور وسیع اصلاحات کا آغاز کیا، کارپوریٹ میڈیا اور زر خرید دانشوروں نے عالمی سطح پر افغانستان کی تاریخ کے اس سب سے روشن باب کے خلاف زہرآلود پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ اس انقلاب نے افغانستان کے محکوم عوام کو صدیوں کے جبر اور وحشیانہ سامراجی بربریت سے نجات دلانے کی ٹھانی تھی۔
حاوی سرمایہ دارانہ دانش، صحافت اور سیاست ثور انقلاب کو سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو مجرمانہ انداز میں چھپایا جاتا ہے کہ روسی افواج 29 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئیں یعنی انقلابی فتح کے اٹھارہ ماہ بعد۔ انقلابی افغانستان کے پہلے دو صدور اور پی ڈی پی اے کے خلق دھڑے کے راہنما نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کو ماسکو میں برسر اقتدار افسر شاہانہ حکومت پر زیادہ اعتبار نہیں تھا۔ پی ڈی پی اے کی قیادت کا یہ دھڑا کسی بھی بیرونی قوت بشمول سوویت یونین کی مداخلت کے سخت خلاف تھا۔ بعد میں نور محمد ترہ کئی ایک محلاتی سازش کے دوران قتل ہوا‘ اور حفیظ اللہ امین روسی افواج کی مداخلت والی شام کو ہی قتل کر دیا گیا۔
اگرچہ ثور انقلاب مارکسی نقطہ نظر سے کوئی کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا‘ لیکن اس نے خطے کے جاگیردارانہ جبر، قبائلی پسماندگی، مذہبی جبر، سرمایہ داری اور سامراجیت پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی جو جنوبی ایشیا میں کوئی دوسرا نہیں کر سکا۔ سوویت یونین کی افواج کی افغانستان میں مداخلت سے اٹھارہ مہینے پہلے کے عرصے میں ملک کی سماجی اور معاشی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں انقلابی اقدامات کیے گئے۔ عورتوں کی جنسی برابری کو یقینی بنانے اور مردانہ جبر کے خاتمے کے لیے لڑکیوں کی مال و اسباب کے بدلے جبری شادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ جاگیرداروں، ملائوں اور شاہی خاندان کی زمینوں کو بغیر معاوضے کے ضبط کر کے بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسان کوآپریٹوز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غریب کسانوں پر نسلوں سے چلے آ رہے سود خوروں اور زمینداروں کے قرضوں کو منسوخ کر دیا گیا۔
خواندگی کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔ 1984ء تک پندرہ لاکھ لوگوں نے خواندگی کے کورس مکمل کیے اور اسی سال پورے ملک میں بیس ہزار سے زائد خواندگی کے کورس چل رہے تھے‘ جن میں 377,000 افراد تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ 1986ء تک تمام شہری علاقوں اور 1990ء تک پورے افغانستان سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے۔ انقلاب کا سب سے اہم قدم سرمائے کی اولیگارشی (اشرافیہ) کو اکھاڑ پھینکنا تھا تبھی یہ ریڈیکل اقدامات کیے جاسکتے تھے۔ ثور انقلاب نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا کہ نوآبادیاتی ممالک میں بورژوا جمہوری انقلاب کے بنیادی فرائض کی تکمیل بھی بوسیدہ سرمایہ داری کے اندر ناممکن ہے۔
ان ریڈیکل اقدامات نے خطے میں سامراجی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور سامراجی دارالحکومتوں کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ سامراجی پشت پناہی میں 'کافرکمیونسٹوں‘ کے خلاف چلنے والی جنگ بھی حقیقت میں ایک رد انقلابی رجعتیت تھی تاکہ اس انقلاب کے حاصلات کے اثرات کو خطے بھر میں پھیلنے سے روکا جائے۔ اس سامراجی رد انقلابی جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا خطہ ایک ایسی خونریزی میں غرق ہو گیا‘ جس سے خطے کے عوام کی زندگیاں آج تک برباد ہیں۔ اس وقت سے اس بنیاد پرستانہ وحشت نے مشرق بعید سے لے کر مشرق وسطیٰ اور یورپ سے لے کر امریکہ تک تمام خطوں کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ افغانستان اور پاکستان ایک طرح سے پُرتشدد اور جرائم پیشہ سماج بن گئے ہیں جہاں کلاشنکوف کلچر، منشیات اور معیشتیں کالے دھن کے کینسر سے پھول کر مزید دہشت گردی اور وحشت کو جنم دے رہی ہیں۔
انقلاب کے بارے ایک غلط فہمی یہ پھیلائی گئی کہ یہ کسی مخصوص قومیت کا انقلاب ہے۔ اس غلط فہمی کو انقلاب کے قائد نور محمد ترہ کئی نے ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنی ایک تقریر میں دور کیا تھا‘ جسے سالوں تک پوشیدہ رکھا گیا۔ انہوں نے کہا، ''ثور انقلاب صرف افغانستان کے مزدوروں اور سپاہیوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کے مزدوروں اور محکوم عوام کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب جسے خلق پارٹی کی قیادت میں مسلح سپاہیوں نے انجام دیا، پوری دنیا کے مزدوروں کے لیے ایک عظیم کامیابی ہے۔ 1917ء کے جس اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا تھا وہ ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے جس نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو جھنجھوڑنا شروع کیا ہے‘‘۔
ثور انقلاب اور اس کے بعد کے جہادی رد انقلاب نے آشکار کر دیا کہ خاردار تاروں سے اور خندقیں کھود کر لوگوں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ طبقاتی بنیادوں پر ایک متحدہ انقلابی جدوجہد ہی خطے کو درپیش خونریزی، دہشت گردی، تباہی، استحصال، محرومی، بھوک، بیماری اور ناخواندگی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
تباہ حال افغانستان آج بھی مغربی اور مشرقی سامراجی ممالک کی وحشت کا شکار ہے۔ یہ سب افغانستان کی وسیع معدنیات اور سٹریٹیجک محل وقوع کے درپے ہیں۔ افغانستان میں مداخلت کرنے والے ان تمام ممالک کی اپنی اپنی پراکسیاں ہیں۔ اس لیے طالبان کوئی یکجا قوت نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ اس ستم دیدہ سرزمین کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اشرف غنی اپنے پیشرو کی طرح ایک سامراجی گماشتہ ہے جس کی کابل سے باہر کوئی رِٹ نہیں ہے۔ اس لیے دولت کے سرمایہ دارانہ تعلقات کی بنیاد پر ان کو ایک سیٹ اپ میں یکجا کر کے کوئی حقیقی امن حاصل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بیرونی پشت پناہی اور مداخلتوں سے خونریزی اور تنائو مزید بڑھا ہے۔ ثور انقلاب کا بنیادی سبق یہ ہے کہ صرف طبقاتی جدوجہد کے پروگرام پر ہی ملک سے بوسیدہ سرمایہ داری کا خاتمہ اور افغانستان کے عوام کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ آج کے حالات میں ایک انقلابی فتح کو اپنی کامیابیوں کو محفوظ کرنے کے لیے باہر نکلنا ہو گا‘ تب ہی تشدد، خونریزی، استحصال اور محرومی سے پاک سماج کا قیام ممکن ہو سکے گا۔