اس کرۂ ارض پر حصول زر کے لیے ایک حشر بپا ہے۔ ایک طبقہ دولت کے انبار اور اثاثوں کے لا متناہی اضافے کی اندھی دوڑ میں ہر قدر‘ ہر انسانی احساس اور معاشرتی زندگی کی تہذیب کو روندتا چلا جا رہا ہے۔ اس ہوس کی وحشت میں حکمران طبقہ نہ صرف آپس میں برسر پیکار ہے بلکہ اپنے مختلف دھڑوں کے لالچ اور لوٹ مار کے تصادم کے باوجود محنت کش طبقات کی بھاری اکثریت پر اس طبقاتی نظام کو مسلط رکھنے کی کوششوں میں بھی متفقہ اور مشترکہ طور پر مصروف ہے۔
محنت کش طبقہ عام حالات میں حکمرانوں کی ثقافت‘ سماجی اقدار ‘ اخلاقیات ‘ ریت رواجوں ‘ تعصبات اور توہمات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ۔ معاشرتی جبر میں دبا ہوا بظاہر اس مخصوص کیفیت میں نحیف و لا چار دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی دانش اور ذرائع ابلاغ‘ دونوں اس جبر کے تسلط کو عمومی سماجی نفسیات پر حاوی رکھنے کے لیے مسلسل یلغار میں مصروف ہیں۔ آج دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں یہ استحصال اور ظلم کسی نہ کسی درجے پر موجود نہ ہو۔ خوشحالی اور بہتری اب ترقی یافتہ ممالک میں قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہے ۔ سرمایہ داری کے اس تاریخی اور عالمی بحران کی شدت سے پاکستان جیسے ممالک‘ جو پہلے سے ہی بدحال تھے‘ مزید بربادیوں اور تباہ کاریوں کے بھنور میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ اس نظام کی فوجی آمریتوں نے تو ان کے جسموں پر زخم لگائے ہی تھے اس کی جمہوریتوں نے بھی ان کی روح‘ احساس اور نفسیات کو غربت ‘ مہنگائی ‘ بے روزگاری اور محرومی کے تابڑ توڑ حملوں سے بری طرح مجروح اور گھائل کئے رکھا ہے۔ مہنگائی کی انتہاؤں میں محنت کش عوام روٹی ‘ علاج ‘ تعلیم اور دوسری ضروریات سے تیزی سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر پٹرول ‘ آٹا اور تمام بنیادی ضروریات مہنگی ہوتی ہیں تو حکمرانوں کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا‘ لیکن مہنگائی میں ایک ایک روپے کا اضافہ محنت کشوں کی روح اور احساس پر ایک کاری ضرب لگاتا چلا جاتا ہے ۔ لوڈ شیڈنگ اور گرمی کی اذیت حکمرانوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کی ہوتی۔ قدرتی آفات ہوں یا صنعتی حادثات بربادیاں صرف محکوم طبقے کی ہی ہوتی ہیں۔ حکمرانوں کے آزاد میڈیا میں کسی اصل ایشو پر بات کرنا اور کسی بھی سچ کو بولنا اس کے اپنے مروجہ اقدار میں ایک جرم بن چکا ہے۔ 90 فیصد عوام کی آزادیٔ اظہار شاید کبھی بھی اتنی سلب نہیں تھی ۔ آج کی سیاست میں محنت کشوں کی نجات ‘ انقلابی سوشلزم‘ کا لفظ بولناگناہ کبیرہ سے بڑا جرم بن چکا ہے۔
یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں مارے جانے والے مزدوروں نے بھی اسی سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف آواز بلند کی تھی ۔ یہ مزدور سفید جھنڈے لے کر شہر کے مرکزی ''ہے اسکوائر ‘ ‘ میں آٹھ گھنٹے روزانہ اوقات کار کا مطالبہ لے کر ایک مظاہرے میں آئے تھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ اس پر امن مظاہرے کو کس سفاکی سے کچلا جائے گا! جوں جوں یہ آگے بڑھتے گئے امریکی ریاست کی پولیس نے ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں ۔ ایک کے بعد دوسرا مزدور ان گولیوں کی بوچھاڑ میں گرتا چلا گیا۔ ان کے بہتے ہوئے لہو میں بھیگ کر ان کے سفید پرچم سرخ ہو گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد مزدوروں کی ہر جدوجہد اور تحریک کا پرچم سفید نہیں بلکہ سرخ ہو گیا۔ 14 جولائی 1889ء کو پیرس میں مارکسسٹوں کی دوسری بین الاقوامی (Second International) کی تشکیل کے لئے ایک تاسیسی کانگریس ہوئی ۔ اس کانگریس میں عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے شکاگو کے ان شہید مزدوروں کی یاد میں یکم مئی کو پوری دنیا میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ مزدوروں کی اس بین الاقوامیت کا مطلب صرف یہی ہے کہ ان کی زندگی کی جدوجہد اور مقاصد ایک ہی ہوتے ہیں ۔ محنت اور سرمائے کی اس جنگ میں طبقات ، مفادات کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اس لئے اس طبقاتی جنگ کا زور توڑنے اور اس حوالے جذبوں کو ماند کرنے کے لئے حکمران رنگ ، نسل ، قوم ، مذہب اور دوسرے تعصبات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس اور اینگلز نے جو بنیادی نعرہ مزدور تحریک کو دیا تھا وہ ''دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جاؤ ‘‘ کا تھا۔ یہ نعرہ ماضی کے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک عظیم طبقاتی یکجہتی کا پیغام ہے ، دوسرے الفاظ میں اس کے معنی ہیں ''ایک کا دکھ... سب کا دکھ!‘‘۔ یوم مئی دنیا کا واحد تہوار ہے جو تمام تعصبات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر محنت کرنے والے انسان مناتے ہیں ۔ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں محنت کرنے والے اس روز صرف محنت اور سرمائے کے تضاد اور طبقاتی کشمکش کے نام پر اکٹھے ہوں گے۔
آج جہاں موجودہ معروض کا وحشت ناک جبر مظلوموں کی ہر آواز ، ہر طبقاتی ابھار اور ہر بغاوت کو درندگی سے کچل رہا ہے‘ وہاں آج دنیا بھر میں ہمیں ابھرتی ہوئی عوامی سیاسی بغاوتوں کے پہلے قدموں کی چاپ میڈیا کی اس خاموشی میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایک نئی نسل اس سفاکانہ نظام اور استحصال کے خلاف تلملا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ہمیں پچھلے کئی سالوں سے مختلف اداروں میں درجنوں چھوٹی بڑی تحریکیں نظر آ رہی ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان ، طلبہ ، اساتذہ ، ڈاکٹرز ، لیڈی ہیلتھ ورکرز ، ٹیلی کمیونی کیشنز ، ریلوے ، سٹیل مل ، ڈاک ورکرز ، میڈیا ملازمین غرضیکہ شاید ہی کوئی ادارہ یا شعبہ ایسا ہو گا‘ جہاں ایک تسلسل کے ساتھ اس ذلت اور بربادی کے خلاف تحریکیں ابھر نہ رہی ہوں ۔
ان مظلوم عوام کی تحریک کے تمام راستے ریاست‘ سیاست اور صحافت نے مکمل طور پر بند کر دیئے ہیں۔ لیکن اس تحریک کو حکمران کب تک روک سکیں گے ۔ جیسے مختلف ندیوں اور جھرنوں کا پانی کسی بڑے بند میں جمع ہوتا رہتا ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب ان میں ابھرنے والی طغیانی بڑے سے بڑے بند کو توڑ کر ایک سیلاب بن جاتی ہے ۔ آج جس نہج پر یہ نظام پہنچ گیا ہے اس میں ماضی کی طرح اب اصلاحات کے ذریعے انقلاب کو روکنے کا ہتھکنڈا متروک اور بیکار ہو چکا ہے۔ قومی ‘ لسانی ‘ نسلی اور دوسرے تعصبات کو بھی حکمران ایک حد تک ہی استعمال کر سکتے ہیں ۔ جمہوریت اور آمریت کے تضاد کا شور معیشت کی زبوں حالی اور عوام کی برباد حالتوں کے خلاف آواز کو زیادہ دیر خاموش نہیں رکھ سکتا۔ سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں کی لڑائیاں بھی محنت کشوں کے لیے بے معنی ہو چکی ہیں ۔ نفرت اور بغاوت کا ایک لاوا سماج کی کوکھ میں شدت سے بھڑک رہا ہے ۔ اس سال یوم مئی اس کا بڑا اظہار ہو گا ۔ یہ دنیا کا واحد تہوار ہے جو قوم ‘ نسل ‘ مذہب اور رنگ کے تعصبات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر محنت کرنے والے انسان مناتے ہیں۔ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں محنت کرنے والے صرف محنت اور سرمائے کے تضاد اور کشمکش کے نام پر ابھریں گے ۔ بہت سے مقامات پر ان کے اندر سلگتے ہوئے غم و غصے کا اظہار حیران کن مناظر بھی پیش کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر میں بھوک ‘ استحصال اور محرومی کی شدت ان رشتوں کو مضبوط کر رہی ہے ۔ ماضی کے تعصبات سے طبقاتی یکجہتی میں دراڑیں ڈالنے کے حربے دم توڑ رہے ہیں۔ لیکن اب محنت کشوں کو اس طبقاتی جنگ کا آخری فیصلہ کن معرکہ لڑنا ہو گا۔ انسانی بقا کا اب سوشلسٹ انقلاب کے بغیر کوئی راستہ نہیں۔ یہی یوم مئی کا پیغام ہے۔
یہ دنیا کا واحد تہوار ہے جو قوم ‘ نسل ‘ مذہب اور رنگ کے تعصبات کے بندھنوں سے آزاد ہو کر محنت کرنے والے انسان مناتے ہیں۔ دنیا بھر کے گوشے گوشے میں محنت کرنے والے صرف محنت اور سرمائے کے تضاد اور کشمکش کے نام پر ابھریں گے ۔ بہت سے مقامات پر ان کے اندر سلگتے ہوئے غم و غصے کا اظہار حیران کن مناظر بھی پیش کر سکتا ہے ۔