"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان میں انتخابات کی داستان

آج پاکستان کے آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ووٹرز جس الیکشن میں آئندہ پانچ برس کے لیے مرکزی اور صوبائی سطح پر نئی قیادت منتخب کر رہے ہیں وہ پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیادپر براہِ راست طریقے سے منعقد ہونے والے دسویں انتخابات ہیں۔پاکستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط انتخابی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو بڑے د لچسپ اور سبق آموز حقائق سامنے آتے ہیں۔ مثلاََ ملک کے فوجی حکمرانوں کی اولین ترجیح تو بغیر کسی انتخاب کے حکمرانی کے مزے اُڑانا ہوتی تھی لیکن اگر اندرونی اور بیرونی دبائو سے مجبور ہو کراُنہیں انتخابات پر آمادہ ہونا بھی پڑا تو حسب خواہش \\\"مثبت نتائج\\\"حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے ووٹرز اور امیدواروں کی اہلیت پر متعدد پابندیاں عائد کر دیں۔مثلاََ ایوب خاں نے بالغ رائے کی بنیاد پر براہ راست انتخاب کے اصول کو خیر باد کہہ کر صدارت اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں صرف80ہزار بی۔ڈی ممبرز کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات اس لحاظ سے غیر معمولی نوعیت کے حامل تھے کہ یہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے عام انتخابات تھے۔اس میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کیلئے1579امیدواروں میں مقابلہ ہوا تھا۔ان 300نشستوں میں سے 162مشرقی پاکستان کے لیے تھیں اور باقی 138مغربی پاکستان کو الاٹ کی گئی تھیں۔مشرقی پاکستان میں دو کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ مغربی پاکستان میں 81سیٹیں جیت کرپاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یحییٰ خاں نے یہ انتخابات اس اُمید پر کرائے تھے کہ ان انتخابات میں کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور اس طرح فوج کو بدستور اقتدار میں رہنے کا موقع مل جائے گا۔ یحییٰ خاں کے بعد پاکستان کے تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے1977ء میں اقتدار پر قبضہ کے موقع پرقوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 90دن کے اندر انتخابات کروا کر حکومت عوام کے نمائندوں کے حوالے کر دیں گے۔لیکن 90دن کی بجائے اس وعدے کو پورا کرنے میں8سال لگے۔31جنوری 1984ء کو مارشل لاء کے خاتمے اور آئین کی بحالی کے بعد مارچ1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے جو انتخابات کروائے اُن میں سیاسی پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔بلکہ مئی1988ء کووزیراعظم محمد خاں جونیجو کی برطرفی کے بعد جب آئین کے تحت جنرل ضیاء الحق نے آئندہ انتخابات کے پروگرام کا اعلان کیا تو اُسی موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ نہ صرف یہ انتخابات غیر جماعتی ہوں گے بلکہ اگر موقع ملتا رہا تو آئندہ تیس برس تک ہونے والے انتخابات بھی بغیر سیاسی پارٹیوں کی شرکت کے منعقد ہوں گے۔تاہم موت نے اُن کو مہلت نہ دی اور وہ اگست1988ء کو طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔اُن کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو پارٹی بنیادوں پر منعقد کرنے کے حق میں فیصلہ دیا؛ چنانچہ1988ء کے ان انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی شرکت کی جس نے قومی اسمبلی کی 92نشستیں حاصل کیں اور بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ ملک کی خاتون وزیراعظم بنیں۔ 1988ء میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں کو بمشکل دوسال کام کرنے کا موقع ملا۔اگست1990ء میں صدر غلام اسحاق خاں نے بے نظیر حکومت کو معزول کردیا جس کے بعد اکتوبر1990ء کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے صدر اسحاق کے حکم پر آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کی حریف سیاسی جماعتوں پر مشتمل انتخابی اتحاد یعنی اسلامی جمہوری اتحاد میں 14کروڑ روپے تقسیم کیے تھے۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 45نشستیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ آئی جے آئی نے 105 نشستیںجیتیں‘ اس طرح میاں محمد نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور کا آغاز ہوا۔ 1999ء میںجنرل مشرف وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسراقتدار آئے تو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اُنہوں نے2002ء میں عام انتخابات کروائے لیکن ان انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے متعدد اقدامات کیے۔سب سے پہلے اُنہوں نے بطور صدر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے نفاذ کا اعلان کیا۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو انتخابات سے دور رکھنے کے لیے اُن کی قیادت کو نہ صرف جلا وطنی پر مجبور کیا بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بے نظیر اور نواز شریف خود انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں، کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری کے لیے امیدوار کا ذاتی طور پر ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہونا لازمی قرار دیا گیا۔چھ مذہبی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک انتخابی اتحاد یعنی ایم ایم اے قائم کیا گیا۔ روایتی سیاستدانوں کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لیے امیدوار کا بی۔اے تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ ووٹ ڈالنے کے اہل بنانے کے لیے اہل ووٹر کی حد عمر بیس برس سے اٹھارہ برس کر دی گئی۔انتخابات میں دینی رہنمائوں کی شرکت بڑھانے کے لیے دینی مدرسوں سے حاصل شدہ سندوں کو یونیورسٹی کی ڈگری کے برابر قرار دے دیا گیا۔ اس طرح2002ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد یعنی ایم ایم اے نے مسلم لیگ(ن)کی18نشستوں کے مقابلے میں 59نشستیں حاصل کیں۔نہ صرف خیبر پختون خوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں ایم ایم اے نے حکومت قائم کی بلکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے علاوہ مرکز میں بھی مسلم لیگ(ق)کی سربراہی میں مخلوط حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ان اقدامات سے مشرف ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو حکومت سے باہررکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ مشرف 2008ء کے انتخابات میں بھی بے نظیربھٹو اور نواز شریف کی شرکت کے خلاف تھے۔اپنے ایک حالیہ بیان میں اُنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ اُن کے اور بے نظیر کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا کہ وہ یعنی بے نظیر الیکشن سے پہلے پاکستان نہیں آئیں گی۔لیکن اُنہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور یوں 27دسمبر کو راولپنڈی میںایک خود کُش حملے میں شہید ہو گئیں۔نواز شریف کو بھی 2008ء کے انتخابات کے موقع پر پاکستان آنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ 2008ء کے انتخابات کو نسبتاً صاف اور شفاف کہا جاتا ہے۔اُس کی وجہ یہ تھی کہ وکلاء کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے حق میں چلائی جانے والی تحریک نے امور مملکت پر مشرف کی گرفت کو کافی کمزور کر دیا تھا اور اس کے علاوہ مشرف کی خواہش کے برعکس فوج نے انتخابات کے دوران میں مکمل طور پر غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی،تحریک انصاف اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے حصہ نہیں لیاتھا۔ اس کی وجہ سے 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ ان پارٹیوں کی جانب سے سخت تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنی رہی۔تاہم ان انتخابات میں ووٹرز ٹرن آئوٹ تقریباََ 45فیصد ہونے اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) ، مسلم لیگ(ق)، متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی اور جمعیت العلمائے اسلام(ف) کی شرکت کی وجہ سے 2008ء کے بعد جو پارلیمنٹ تشکیل پائی وہ نہ صرف ایک فعال پارلیمنٹ تھی بلکہ ان پانچ برسوں کے دوران ایک مستحکم حکومت بھی برسرِاقتدار رہی۔اس دور کو پاکستان میں جمہوریت کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں