اکثر کہا جاتا ہے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن 11مئی کے ا نتخابات کے نتائج نے یہ مقولہ غلط ثابت کردیا۔ عوام کو اور خصوصاً پنجاب کے عوام کو یہ بات اچھی طرح یاد تھی کہ جس رہنما کو انہوں نے 16برس قبل دو تہائی اکثریت سے منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا تھا اسے ایک طالع آزما جرنیل نے کتنی آسانی سے معزول کرکے، ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ لوگ اس کا ذکر نہیں کرتے لیکن اپنی معزولی سے قبل ضیا دور کی رسوائے زمانہ آٹھویں آئینی ترمیم کی شق 58-2B کو ختم کرکے نوازشریف نے جمہوریت کی بہت بڑی خدمت کی تھی لیکن عوامی حاکمیت سے خائف غیر سیاسی قوتوں کو یہ اقدام پسند نہ آیا اور انہوں نے نوازشریف کی حکومت کے خلاف سازشوں کا تانا بانا بننا شروع کردیا جو بالآخر 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ جنرل مشرف بے نظیر اور نوازشریف دونوں کی مقبولیت سے ڈرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ آزاد اور غیر جانبدار انتخاب کی صورت میں ان دونوں رہنمائوں میں سے کسی ایک کو وزیراعظم بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس لیے انہوں نے کسی ممبر قومی اسمبلی کے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر پابندی کا قانون منظور کروا لیا لیکن عوامی طاقت کے سامنے اس کی یہ رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ گزشتہ پارلیمنٹ نے یہ پابندی ختم کردی اور اس طرح 11مئی کے انتخابات میں عوام نے میاں محمد نوازشریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بنانے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اب جبکہ مسلم لیگ نون کی مرکز میں حکومت قائم ہونے کو ہے اور وزیراعظم کی حیثیت سے جناب نوازشریف ملک کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے‘ پاکستانی عوام کو یقیناً ان سے کچھ توقعات ہیں اور عوام کی یہ بھی بھرپور خواہش ہے کہ وہ ان توقعات پر پورا اتریں۔ ان میں سے سب سے پہلی ترجیح تو بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کیلئے سعودی عرب سے Deferred Payment کا معاہدہ کرکے تیل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ نہ ہی اس مسئلے سے پاکستان اکیلا نمٹ سکتا ہے۔ توانائی ایسا شعبہ ہے جس میں مقامی سرمایہ اور وسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں اپنے مدمقابل تمام سیاسی جماعتوں کو بری طرح پچھاڑ دیا ہے۔ نون لیگ نے قومی اسمبلی کی جتنی نشستیں جیتی ہیں ان میں سے 90فیصد سے زائد پنجاب سے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پنجاب کی پارٹی ہے کیونکہ اس کا ’’سپورٹ بیس‘‘ پنجاب ہے۔ لیکن نوازشریف محض پنجاب کے لیڈر نہیں وہ 1988ء سے قومی لیڈر ہیں جب بے نظیر دور میں بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کی انہوں نے بھرپور مذمت کر کے بلوچ قوم پرست رہنمائوں کے دل جیت لیے تھے۔ آج ایک دفعہ پھر بلوچ قوم کو نوازشریف کی ضرورت ہے۔ لوڈشیڈنگ‘ بیروزگاری‘ بد امنی اور غربت کے مسائل اپنی جگہ لیکن صوبے کے لوگوں کا سب سے اہم مسئلہ گمشدہ افراد کی بازیابی، بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی اور گولیوں سے چھلنی‘ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں کی کبھی یہاں اور کبھی وہاں سے برآمدگی ہے۔ مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانا ہو تو سپریم کور ٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ریمارکس پڑھ لیجیے۔ بلوچستان کے عوام کو قوی امید ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اپنی پہلی فرصت میں گم شدہ افراد کی گتھی سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ اس وقت قومی سلامتی کو سب سے زیادہ سنگین خطرہ دہشت گردی ہے۔ نوازشریف خود بھی متعدد بار اس طرف اشارہ کر چکے ہیں اور اس سے فوری اور موثر طور پر نمٹنے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں۔ اسی لیے گزشتہ مارچ میں دہشت گردی کے مسئلے پر اسلام آباد میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) نے بھی شرکت کی تھی۔ بیرونی محاذ پر افغانستان کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات اور حالیہ چند واقعات کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی ایسے مسئلے ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کے اعلان کے مطابق افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ انخلاء 2014ء کے آخر تک مکمل کرلیا جائے گا۔ یوں افغانستان جو گزشتہ بارہ برس سے جنگ اور تباہی سے دوچار چلا آرہا ہے اب نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اس اہم مرحلے سے پرامن اور خوش اسلوبی سے گزرنے کے لیے افغانستان میں امن اور مصالحت ناگزیر ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان کا مثبت کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن حال ہی میں پاک، افغان سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان مسلح جھڑپوں نے نئی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ان جھڑپوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو نہ صرف دھچکا لگا ہے بلکہ حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں کہ طورخم سرحد پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان دوبارہ فائرنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ مشرقی سرحد پر بھی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ اس سال جنوری میں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ اور جانی نقصان تھا۔ بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کی سرحدی فوج نے بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کے علاقے میں گھس کر دو بھارتی جوانوں کو ہلاک کر دیا تھا اور جاتے ہوئے ایک سپاہی کی سربریدہ لاش چھوڑ گئے تھے۔ بھارتی میڈیا نے اس مسئلے کو خوب اچھالا اور اس کی وجہ سے بھارتی عوام میں کافی غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ ابھی یہ آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کی موت کا کیس سامنے آگیا۔ اسے جیل میں ہی مبینہ طور پر اس کے دو قیدی ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ بھارت میں اس کی موت پرسخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ جوابی کارروائی کے طور پر سری نگر جیل میں قید ایک پاکستانی ثناء اللہ کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ ان دو واقعات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں کشیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اجمیر شریف جانے والے پاکستانی زائرین کی روانگی منسوخ کرنی پڑی کیونکہ بھارت نے ان کی سلامتی اور حفاظت کی ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا۔ پیشتر اس کے کہ حالات مزید بگڑیں‘ جناب نوازشریف کو مداخلت کرکے نارمل صورت حال پیدا کرنے پر زور دینا ہوگا۔ کیونکہ سرحدوں پر امن سے ہی پاکستان کے اندر استحکام کی فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ ایک ایسے ملک کیلئے جس کے سماج کے تانے بانے بکھر چکے ہوں‘ عوام کو ناگہانی موت کا ہر گھڑی دھڑکا لگا رہتا ہو‘ جس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہو اور جو دنیا بھر میں دہشت گردوں کے پشت پناہ کے طور پر پہچانا جاتا ہو‘ اندرونی اور بیرونی امن سے اہم اور کوئی چیز نہیں۔ نو منتخب حکومت اس کے حصول میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔