کیا پاکستانی طالبان کے ساتھ نئی حکومت کے مذاکرات شروع ہونے والے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے اہم مسلم لیگ (ن)کے قائد جناب محمد نواز شریف کے دو مواقع پہ بیانات ہیں جن میں اُنہوں نے کہا تھا کہ نئی حکومت طالبان کی طرف سے گزشتہ فروری میں کی جانے والی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لے گی۔حال ہی میں نو منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے جناب نواز شریف نے ایک دفعہ پھر اپنے موقف کو دہرایا اور کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں کیونکہ طاقت کے استعمال کے مقابلے میں یہ ایک بہترین آپشن ہے اور امن کی خاطر اس آپشن کو آزمانا ہوگا۔ طالبان نے جناب نواز شریف کے ان بیانات کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی پیش کش کو جسے وہ پہلے معطل کر چکے تھے دوبارہ پیش کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ نئی حکومت اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ مسلم لیگ (ن)کی طرح تحریک انصاف کا موقف بھی ہمیشہ سے مذاکرات کے حق میں رہا ہے۔ چنانچہ صوبہ خیبر پختونخوا کے‘ نامزد وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک نے اپنی پارٹی کے نو منتخب اراکین اسمبلی کے ہمراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی۔مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ اور جمعیت العلمائے اسلام(سمیع الحق گروپ)کے امیر ہونے کے ساتھ متحدہ دینی محاذ کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی اور افغان طالبان دونوں کے بہت قریب ہیں۔بلکہ 1994ء میں جب افغانستان کے سیاسی اُفق پر طالبان ایک طاقتور تحریک بن کر اُبھرے تھے اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ہمارے ہی آدمی ہیں۔اب بھی گزشتہ روز مولانا سمیع الحق نے ایک بیان میں طالبان کے ساتھ اپنی قربت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اُن میں سے بیشتر ہماری درسگاہ کے سند یافتہ ہیںاور وہ مجھے اپنا باپ سمجھتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق اور طالبان کے درمیان قربت کی بات تو سچ ہی ہو گی۔لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ان کی بات مانیں گے بھی یا نہیں؟ اور کیا ان کی مداخلت سے پاکستانی طالبان دہشت گردی سے کنارہ کش ہو کر امن کی راہ اپنائیں گے؟اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دینا اس لیے مشکل ہے کہ ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ خوشگوار نہیں رہا۔ 2004ء سے2009ء تک طالبان اور حکومت کے درمیان فوج کی وساطت سے مذاکرات کے نتیجے میں 6معاہدے ہوئے تھے لیکن خود طالبان نے ان معاہدوں سے علیحدگی کا اعلان کر کے دوبارہ حملے شروع کر دیے تھے۔طالبان کی طرف سے الزام لگایا گیاکہ حکومت نے ان معاہدات کی خلاف ورزی کی تھی۔اب بھی اگر مذاکرات کا آغاز ہوا تو سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ یہ مذاکرات کن شرائط پر ہوں گے۔اگرہم گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے عرصہ پر محیط‘ حکومت طالبان مذاکرات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ طالبان کبھی بھی ایک جیسے موقف اور یکساں شرائط پر قائم نہیں رہے۔بلکہ اُن کی شرائط بدلتی رہی ہیں۔مثلاً 2004ء میں جب معاہدہ شکنی پر بات چیت ہو رہی تھی تو طالبان کی طرف سے حکومت کو چار شرائط پیش کی گئی تھیں۔پہلی شرط یہ تھی کہ اُنہیں افغان طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرنے کی اجازت دی جائے۔دوسری یہ کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں جو غیر ملکی جنگجو موجود ہیں اُنہیں رہنے کی اجازت دی جائے۔تیسری شرط تھی کہ اُنہیں مقامی طور پر انتظامی اور عدالتی امور اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جائے۔اور چوتھی شرط یہ تھی کہ اُنہیں جانی اور مالی طور پر جو نقصان پہنچا ہے اُس کا معاوضہ ادا کیا جائے اور اُن کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔ اُس وقت کی اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے نہ صرف گرفتار طالبان کو رہا کیا بلکہ اچھی خاصی رقم معاوضے کے طور پر ادا کرنے کے علاوہ ان کے وہ ہتھیار بھی واپس کر دیئے۔ اس دفعہ بھی مذاکرات کے لیے طالبان نے جو شرائط عائد کی ہیں انہیں تسلیم کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی۔مثلاً 27دسمبر 2012ء کو طالبان کی طرف سے بالواسطہ طور پر مذاکرات کی جو سب سے پہلے پیش کش کی گئی تھی اُس میں طالبان نے چار شرائط عائد کی تھیں یعنی امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے جائیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی جائے،پاکستان کے موجودہ قانون اورآئین کو تبدیل کر کے اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے اور بھارت کے خلاف انتقام پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے۔ گزشتہ فروری کے اوائل میں طالبان کی طرف سے ایک دفعہ پھر مذاکرات کی پیش کش کی گئی۔ یہ پیش کش بھی باضابطہ طور پر نہیں کی گئی تھی بلکہ تحریک طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسودنے ایک وڈیو پیغام کے ذریعہ اسے دہرایا تھا۔ اس میں جو شرائط پیش کی گئیں ان میں قبائلی علاقے میں افواجِ پاکستان پر حملہ کرنے والے کمانڈر مسلم خاں اور مولوی عمر کے ساتھ اُن کے پانچ ساتھیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات شروع بھی ہو جائیں تو حکومت پاکستان کس حد تک ان شرائط کو تسلیم کر کے طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کر سکتی ہیں۔پہلی حکومت کی طرح آنے والے حکمرانوں نے بھی صاف صاف کہا ہے کہ جو فیصلہ ہو گا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہو گا۔جبکہ طالبان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نہ تو اس آئین کوتسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قانون کو بلکہ وہ سارے کے سارے جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔قدرتی طور پر سب سے پہلے طالبان یہ مطالبہ کریں گے کہ ڈرون حملے بند کیے جائیں۔مسلم لیگ(ن)اور تحریکِ انصاف بھی ڈرون حملوں کے خلاف ہے لیکن امریکہ اس وقت تک ڈرون حملے بند نہیں کرے گا جب تک اس کے مطابق افغانستان میں گُھس کر کاروائی کرنے والے طالبان کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔کیا حکومت پاکستان ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے پر طالبان کو راضی کرلے گی؟ جہاں تک موجودہ آئین اور قانون کو تبدیل کرنے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق پاکستان کے عوام سے ہے کوئی طاقت خواہ وہ اندرونی ہو یا بیرونی،زبردستی اپنی مرضی پاکستانی عوام پر نہیں ٹھونس سکتی۔اس کے علاوہ طالبان کس اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں اب تک جس اسلامی نظام کی عملی مثال اُنہوں نے پیش کی ہے اس سے تو کئی مذہبی جماعتیں بھی متفق نہیں۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ تعلقات‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت ملک کے اندر کسی گروپ یا پارٹی کو ان پر ڈکٹیشن کی اجازت نہیں دے گی۔ طالبان کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے لیے ان کی پیش کش پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن طالبان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی شرائط پیش کر رہے ہیں اگر فریقین بغیر کسی پیشگی شرائط کے مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں تو ان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔لیکن اگر ان کے ساتھ شرائط وابستہ کی گئیں تو ان کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں۔آنے والی حکومت اور خصوصاََ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت چاہے گی کہ مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی جنگ بندی بھی ہو جائے تاکہ وہ اُس امن کے قیام کا دعویٰ‘ سچ ثابت کر سکیں‘ جس کے نام پر اُنہوں نے عوام سے ووٹ لیے ہیں۔