کراچی میں انتخابی نتائج آنے کے بعد جب تحریکِ انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے کچھ حلقوں میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے اور دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا جانے لگا تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے کراچی میں اپنے کارکنوں سے بذریعہ ٹیلیفون خطاب کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگانے والے اور دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کرنے والے عناصر کو خبردار کیا کہ اس طریقے سے وہ ایم کیو ایم کو دیوار سے نہ لگائیں‘ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم اور کراچی کے عوام کا مینڈیٹ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو منظور نہیں تو وہ کراچی کو پاکستان سے الگ کردیں۔ الطاف حسین نے اس کے بعد جو بیان جاری کیا اس میں انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کی جماعت کے دوسرے ارکان نے بھی واضح کیا کہ کراچی کو پاکستان سے یا سندھ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود مسئلہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور برطانوی پولیس الطاف حسین کے خلاف دھڑا دھڑ شکائتیں وصول کررہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اوّل‘ یہ پہلا موقع نہیں کہ کراچی اور سندھ میں سیاسی مخالفین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی گئی ہو۔ اس سے قبل گزشتہ برس جب سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے مسئلے پر سندھی قوم پرست سیاسی جماعتوں نے اندرونِ سندھ صوبہ میں عوامی احتجاج کو منظم کیا تب بھی ایسا ہی کچھ سننے کو ملا تھا۔ اس کے علاوہ کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں یعنی حیدر آباد وغیرہ کے حوالے سے جب بھی کسی مسئلے پر ایم کیو ایم اور باقی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف ابھرتے ہیں تو ایم کیو ایم کا یہی موقف ہوتا ہے کہ اسے دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کی موجود قیادت اور اس کے لندن میں مقیم جلا وطن رہنما الطاف حسین بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ نہ تو سندھ کی تقسیم چاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی طرف سے پورے شدو مد کے ساتھ یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم سندھ کو تقسیم کرنے یا کراچی کو علیحدہ کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔ دوم‘ کراچی میں تحریکِ انصاف کی صورت میں ایم کیو ایم کو پہلی دفعہ ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کو جو چیلنج درپیش رہے وہ زیادہ تر لسانی تھے‘ مثلاً سندھیوں، پنجابیوں، پشتونوں اور بلوچیوں کی کراچی میں ایک بڑی تعداد کی موجودگی، اردو بولنے والوں کے لیے اس بنا پر تشویش کا باعث تو ہوسکتی ہے کہ اس سے آبادی کا توازن آہستہ آہستہ ایم کیو ایم کے خلاف ہوتا جارہا ہے لیکن یہ لسانی گروپ کراچی پر ایم کیو ایم کی مکمل اور سخت گرفت کے لیے کبھی خطرہ نہیں بن سکے۔ اس کا ثبوت گزشتہ 30برس میں ہونے والے انتخابی نتائج کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن الیکشن 2013ء کے انتخابی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ ایم کیو ایم سے ہٹ کر ایک سیاسی جماعت نے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کا ایک بڑا حصہ اپنی دسترس میں لے لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تحریکِ انصاف کر اچی میں بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے اور بعض ایسے حلقوں میں جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں‘ تحریکِ انصاف کے امیدواروں نے 35 سے 50ہزار تک ووٹ حاصل کیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے ایک مرکزی رہنما کے بیان کے مطابق ان کی پارٹی نے کراچی میں پانچ لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کو یہ حمایت لسانی یا مذہبی بنیادوں پر حاصل نہیں ہوئی بلکہ خالصتاً سیاسی بنیادوں پر ملی ہے جو ایم کیو ایم کے لیے ایک نیا چیلنج ہی نہیں بلکہ ایک بڑے خطرے کی علامت بھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی پولیس سے الطاف حسین کی شکایت کا انبار لگانے والے زیادہ تر تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شکایت صرف الطاف حسین کے بیان تک محدود نہیں بلکہ ان کی اصل شکایت ایم کیو ایم سے ہے جس نے ان کے مطابق دھاندلی سے کام لے کر کراچی میں تحریکِ انصاف کو اس کی ممکنہ کامیابی سے محروم کردیا۔ اب وہ اس دھاندلی کے خلاف کراچی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ برطانوی ہائی کمشنر کے بیان نے ایم کیو ایم کی صفوں میں یقینا کھلبلی مچا دی ہے لیکن غالب امکان یہی ہے کہ کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اس بیان کا مقصد ایک تنبیہ سے زیادہ معلوم نہیں ہوتا کیونکہ برطانیہ پاکستان کی نئی منتخب حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان متعدد شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے بات چیت ہورہی ہے اور منصوبے تجویز کیے جارہے ہیں۔ برطانوی حکومت کسی صورت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات یا اس قسم کے بیانات سے متاتر ہوں۔ لیکن کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن چند پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی یا ووٹوں کی تصدیق کر کے تحریکِ انصاف کے مشتعل کارکنوں کو مطمئن کردے تب بھی کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف مابین سیاسی محاذ آرائی جاری رہے گی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں اتحاد کے بعد اب کراچی میں بھی دونوں جماعتیں ایم کیو ایم کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔ جماعت اسلامی کے علاوہ تحریکِ انصاف کو پیپلزپارٹی اور اے این پی کے ان کارکنوں کی حمایت بھی حاصل ہونے کا امکان ہے جو اپنی اپنی پارٹیوں کی ایم کیو ایم کے ساتھ دوستانہ پالیسی سے نالاں ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کراچی کو محاذ آرائی نہیں بلکہ امن کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام فریق موجودہ زمینی حقائق کو سمجھیں اور تسلیم کریں اور انہی کی روشنی میں اپنی سیاسی حکمت عملی کو مرتب کریں۔ اس کلیے کی سب سے اہم اور سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ سبھی جماعتوں کی قیادت تندوتیز بیانات سے گریز کریں۔ الیکشن میں جو دھاندلیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے اور آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کراچی میں امن و امان کے قیام کو پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے اس کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔