28مئی کو یومِ تکبیر کے موقع پر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد محمد نواز شریف نے جہاں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی پندرھویں سالگرہ کی نسبت سے قوم کی کامیابیوں کا ذکر کیا وہاں اُنہوں نے اس وقت ملک کو درپیش سنگین مسائل پر بھی اظہار خیال کیا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے بتایا کہ ان مسائل کے بارے میں اُن کی اپنی سوچ کیا ہے اور کس طرح انہیں حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مثلاً توانائی خصوصاََ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کے چھٹکارے کے لیے چند فوری نوعیت کے اقدامات کا ذکر کیا وہاں اُنہوں نے یہ بھی کہا اس مسئلے کے مستقل اور دیر پا حل کے لیے وہ پاکستان کے دوست ممالک کی بھی مدد اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اس کے لیے اُنہوں نے چین کا خصوصاً ذکر کیا۔ چینی وزیراعظم سے اُن کے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر اپنی بات چیت کی تفصیلات بتائے ہوئے میاں نواز شریف نے بتایا کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے چین کے ساتھ مل کر متعدد اقدامات کا آغاز کریں گے۔اس ضمن میں اُنہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اُن کے اور چینی وزیراعظم کے درمیان ایک وسیع مشترکہ منصوبے پر اتفاق ہوا ہے جس کے تحت پاکستان میں اقتصادی ترقی،غُربت اور بے روزگاری پر قابو پانے اور توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہونے کے لیے چین پاکستان کی مدد کرے گا: ’’ہم نے ایک ایسامشترکہ منصوبہ تیار کیا ہے جس پر عمل درآمد سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا اور پاکستان میں اس کے نتیجے میں یقینا خوشحالی آئے گی‘‘۔ اُنہوں نے اس منصوبے کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم وعدہ کیا کہ بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے کے بعد وہ اس منصوبے پر تفصیلاً اظہارِ خیال کریں گے۔ گلوبلائزیشن (Globalization)کے اس دورمیں کوئی بھی ملک اکیلے ترقیاتی اور معاشی مسائل پر قابونہیں پا سکتا۔اس بنا پر ہر ملک دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں بیرونی مالی اور تکنیکی امداد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان کو بھی اس مقصد کے لیے دوسرے ملکوں کا تعاون اور امدا د حاصل کرنی پڑتی ہے‘ لیکن جہاں تک چین کا تعلق ہے پاکستان کے ترقیاتی عمل میں اس کی شرکت اور اہم مسائل پر قابو پانے میں اس کے تعاون کا پوری قوم خیر مقدم کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے دُنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں کہیں کسی بھی ملک کے ساتھ اقتصادی ترقی کے لیے تعاون کیا ہے ،وہاں اُس نے محض اپنے مفاد کو پیشِ نظر نہیں رکھا بلکہ اس کی بنیاد باہمی مفاد پر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں ہوں یا افریقہ کے ممالک،چین کے ساتھ ان کے اقتصادی تعاون اور دوطرفہ تجارت کی سطح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین کے تعلقات دیرینہ ہی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے آئے ہیں۔ خصوصاََ دفاعی ،سیاسی اور سفارتی سطح پر چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تعاون اور مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ان شعبوں کے ساتھ ساتھ اب پاکستان اور چین اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بھی فروغ دینے پر مائل نظر آتے ہیں کیونکہ ان شعبوں میں تعاون کے فروغ سے نہ صرف چینی اور پاکستانی عوام خوشحال ہوں گے بلکہ دونوںممالک کے درمیان دوستی کے رشتے او ر بھی مضبوط ہوں گے۔ غربت کے خاتمے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے چین کا تعاون حاصل کرنے سے متعلق میاں نواز شریف کا فیصلہ دانشمندانہ اور انتہائی مُفید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان دونوںشعبوں میں چین کو وسیع تجربہ حاصل ہے۔گذشتہ تین دہائیوں میں چینیوں نے اپنے ہاں غُربت خصوصاََ دیہاتی علاقوں کی پس ماندگی پر جس طرح قابو پایا ہے دُنیا بھر میں اُسے سراہا جا رہا ہے اور بہت سے ممالک اُسے ایک قابل ِ تقلید مثال سمجھ کر اُس پر عمل کر رہے ہیں۔ چین نے اپنی برق رفتار معاشی ترقی کے لیے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جس طرح مربوط اور موثر منصوبہ بندی کی ہے وہ بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔چین کو کوئلے،ہائیڈرو،شمسی ذرائع اور ہوا کے زورسے توانائی پیدا کرنے کا بہت وسیع تجربہ حاصل ہے اور پاکستان اس سے بھر پور استفادہ کر سکتا ہے۔توانائی کے شعبے میں پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں پہلے ہی تعاون موجود ہے‘ ان میں ایٹمی توانائی،ہائیڈرو،کوئلہ سے بجلی پیدا کرنا اور شمسی توانائی شامل ہیں‘ لیکن اس تعاون کو مزید وسیع کرنے کے لیے نہ صرف گنجائش موجود ہے بلکہ پاکستان کودرپیش توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر اس تعاون کو بڑھانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔خود چینی وزیر اعظم نے دورہ پاکستان کے دوران ایک تقریر میں پاکستانی حکام کو تجویز دی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں توانائی کے شعبے کو سرفہرست رکھا جائے۔ پاکستان اور چین کے درمیان خواہ دوستی کے پرانے اور روایتی رشتے برقرار رکھنا مقصود ہوںیا اقتصادی ،تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعاون کے ٹارگٹ کا حصول ہو، پاکستان کی نئی حکومت خصوصاً نیشنل سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کے لیے چند حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ گذشتہ تیس چالیس برسوں میں چین کی خارجہ پالیسی میں ہی نہیں بلکہ چین کے اندر بھی بہت اہم تبدیلیاں آچکی ہیں۔چین کی مارکیٹ میں پرائیویٹ سیکٹر کا رول بڑھ چُکا ہے اور جیسا کہ مسلمہ اُصول ہے پرائیویٹ سیکٹر کبھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جہاں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے اُسے نقصان کا خطرہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ سے اُونچی اور بحیرۂ عرب سے گہری پاک،چین دوستی کے باوجود پاکستان میں چینی سرمایہ کاری صرف دو ارب ڈالر ہے۔اور دوطرفہ تجارت 12ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھی اور وہ بھی زیادہ تر پاکستان کو چینی برآمدات پر مشتمل ہے۔پاکستان اور چین کو ملکر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔لیکن پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے سب سے ضروری شرط پاکستان میں لا اینڈ آرڈر کی بہتری اور دہشت گردی پر مکمل قابو پانا ہے۔ دوسرے‘ چین کو شکایت ہے کہ اُس کے صوبہ سنکیانگ میں گڑ بڑ کرنے والوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔دونوں ملکوں کے لیے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چینی وزیراعظم کے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں نے جن گیارہ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اُن میں گلگت بلتستان میں چین کے ساتھ ملنے والی سرحد پر کنٹرول سخت کرنے کے لیے بارڈر چیک پوسٹیں قائم کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے کیونکہ چین کو خدشہ ہے کہ انتہا پسند دہشت گرد اور علیحدگی پسند اس سرحد کو عبور کر کے سنکیانگ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ نئی حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔پاک چین تعاون کا انحصار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ پاکستانی حکومت اور ریاستی ادارے کہاں تک ان دہشت گردوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔