بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے لیے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی نامزدگی پر اتفاق رائے صوبے کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کے حل کی طرف اہم پیش قدمی ہے۔ڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق جس پارٹی سے ہے اْس کا سپورٹ بیس(Support Base)بلوچستان کے اْن علاقوں میں ہے جہاں سرداری نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔اس پارٹی کے تمام سرکردہ رہنمائوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور پڑھے لکھے ہیں۔خود ڈاکٹر عبدالمالک صوبے کے وزیر تعلیم اور سینیٹر رہ چکے ہیں ۔وہ ایک طرف بلوچستان کے حقوق کے علمبردار ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے موجودہ آئین اور قانونی ڈھانچے میں رہ کر سیاسی جدوجہدکرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے بطور وزیراعلیٰ اْن کا انتخاب نہ صرف صوبہ بلوچستان میں مستحکم اور مؤثرحکومت کے قیام میں مددگار ثابت ہو گا بلکہ یہ وفاق پاکستان کی مضبوطی اور قومی یک جہتی کے فروغ کی طرف بھی اہم قدم ہو گا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی شخصیت ناراض قوم پرستوں کو منانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔وفاق اور صوبہ بلوچستان میں عدم اعتماد کی وسیع خلیج کو عبور کرنے میں ڈاکٹر عبدالمالک کی ذات اہم پُل ہو سکتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن)کو بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں۔جمہوری اْصول کے مطابق صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اس پارٹی سے ہوناچاہیے ،لیکن بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف نے مناسب سمجھا کہ صوبے کی وزارت اعلیٰ کسی بلوچ قوم پرست جماعت کے پاس ہونی چاہیے۔نیشنل پارٹی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں گیارہ نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے چنانچہ مری کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ ہوں گے اور صوبائی گورنر کا عہدہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے حصے میں آئے گا۔پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی صوبائی اسمبلی میں 14نشستیں ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن)کے پاس 18نشستیں ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ(ن)کی یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ ماضی میں اس طرح کی قربانی کی مثال 1950ء کی دہائی میں ملتی ہے جب بنگالیوں نے اپنی عددی اکثریت کے باوجود ایک آدمی ایک ووٹ کے جمہوری حق سے دستبردار ہو کر پاکستان کے دو حصوں میں مساوات (Parity)پر مبنی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے فارمولے کو تسلیم کر لیا تھا۔اْن کی اس عظیم قربانی کی بدولت پاکستان 9برس گزر جانے کے بعد ایک متفقہ آئین(دستور1956ء)تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔لیکن افسوس کہ ایک طالع آزما فوجی جرنیل نے دو سال بعد یعنی1958ء میں مارشل لاء لگاکر اس آئین کو ختم کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ بنیاد بھی مسمار کر دی جس پر متحدہ پاکستان کی عمارت کھڑی تھی۔اْمید ہے کہ اب کوئی مہم جْو اپنے مفاد کی خاطر بلوچستان میں سیاسی مصالحت کے اس عمل کو سبوتاژ نہیں کرے گا۔بلوچستان میں سیاسی مصالحت اور اتفاق رائے کا حصول آسان کام نہیں تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دفعہ انتخابات میںسابقہ روایات کے برعکس بلوچستان کے دو بڑے لسانی گروپ یعنی پختون اور بلوچ کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کی بجائے صوبائی اسمبلی میں اکثریت ایک ایسی پارٹی یعنی مسلم لیگ (ن)کو حاصل ہوئی جس کی قیادت کا مرکز پنجاب میں ہے ۔بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ غیر متوقع اور حیران کْن واقعہ ہے؛کیوں کہ بلوچستان میں عوام نے ہمیشہ قبائلی یا لسانی بنیادوں پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔یہ پہلا موقعہ تھا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ نشستیں اْس پارٹی نے جیتیں جسے عام طور پر پنجاب کی پارٹی کہا جاتا ہے۔لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں بلکہ اس سے بلوچ عوام کے سیاسی شعور کی پختگی،بالغ نظری اور حقیقت پسندی (Pragmatism)کا ثبوت ملتا ہے۔بلوچستان کے عوام عرصہ دراز سے جبر،استحصال،محرومی،توہین ، بے عزتی اور ناانصافی کا شکار چلے آرہے ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں گْمشدہ افراد،ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وجہ سے اْن کی زندگی اور بھی اجیرن ہو کے رہ گئی تھی۔بلوچ سرداروں کو باری باری اقتدار میں لا کر دیکھ لیا گیا لیکن وہ بے بس ثابت ہوئے۔پیپلز پارٹی سے اْن کو بڑی توقعات تھیں لیکن اس نے سخت مایوس کیا۔ایک عرصے سے بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں یہ رائے تقویت پکڑتی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کی کْنجی پنجاب کے ہاتھ میں ہے اور اس کے تعاون اور مدد کے بغیر صوبہ غیر سیاسی قوتوں کے غلبہ سے نجات حاصل نہیںکر سکتا۔ سب سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ جناب نواز شریف کے فیصلے کو نہ صرف بلوچستان کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے خوش آئند کہا ہے بلکہ اْن کی اپنی پارٹی کی صوبائی شاخ نے بھی جس کے صدر سردار ثناء اللہ زہری ہیں ، اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا ہے۔حالانکہ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے وزارت اعلیٰ اْن کا حق تھی۔اس کے علاوہ اُنہوں نے بڑی محنت اور ذاتی قربانی دے کر مسلم لیگ(ن)کو حالیہ انتخابات میں شاندار کامیابی سے ہمکنار کرایا۔اُن کی کوششوں سے بلوچستان اسمبلی میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدوار مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور اس طرح اسمبلی میں پارٹی کے منتخب ارکان کی تعداد 18ہو گئی۔ اس وقت مسلم لیگ(ن)بلوچستان اسمبلی میں نہ صرف عددی اعتبار سے سب سے بڑی پارٹی ہے بلکہ بلوچستان سیاست کے ہیوی ویٹ سیاستدانوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی پارٹی میں موجود ہے۔مسلم لیگ(ن)کو یہ پزیرائی کیسے اور کیوں ملی؟اس سوال کا جواب سردار محمد صالح بھوٹانی کے اس بیان میں موجود ہے جو اْنہوں نے آزاد حیثیت سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد’’ن ‘‘لیگ میں شمولیت کے موقع پر دیا تھا۔اْنہوں نے کہا تھا کہ اس پارٹی کی قیادت میں صوبہ بلوچستان کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔اس طرح جعفر خاں مندوخیل نے 4ارکان اسمبلی کے ہمراہ ’’ن ‘‘لیگ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کو ایک با اختیار اور مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔اور ایسی حکومت صرف مسلم لیگ (ن)ہی فراہم کر سکتی ہے۔ بلوچستان کے عوام کے منتخب نمائندوں نے جس طرح مسلم لیگ (ن)اوراُس کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور توقعات وابستہ کی ہیں،اْس کے پیش نظر پارٹی کی قیادت کو بلوچستان مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ان میں سب سے زیادہ اہم لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ،امن وامان کا مسئلہ اور بے روزگاری کے مسائل ہیں۔بہتر ہو گا کہ نئی حکومت اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر صوبے میں جہاں بھی فوجی آپریشن ہورہا ہے ، فوراً روک دے،تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردے،ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیاجائے ۔فوجی آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے اور انتہا پسند بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا جائے۔