قومی اسمبلی کے رواں بجٹ سیشن کے آغاز میں ملک کی تین اہم سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریکِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ بجٹ پر بحث کے دوران ایک متفقہ موقف اختیار کریں گی۔ یہ اجلاس لیڈر آف دی اپوزیشن اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ کے دفتر میں منعقد ہوا‘ جس میں شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری نے پاکستان تحریک انصاف جبکہ رشید گوندل نے متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندگی کی۔ مبصرین اس اجلاس کو اور اجلاس میں کیے گئے فیصلے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والی تین بڑی سیاسی پارٹیوں نے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ اتحاد غیر رسمی تھا اور اجلاس کے بعد تینوں سیاسی پارٹیوں نے واضح کر دیا تھا کہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی کے رواں سیشن میں محض اشتراکِ عمل کے لیے کیا گیا ہے۔ تینوں پارٹیاں اپنی انفرادی حیثیت اور الگ شناخت برقرار رکھیں گی۔ اس وضاحت کے باوجود مشترکہ اجلاس کے اقدام کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ۔خصوصاً جب ہم اس پیش رفت کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ11مئی کے انتخابات کے بعد جہاں ایک طرف پاکستان مسلم لیگ(ن)کو نمایاں اکثریت حاصل ہوئی وہاں اپوزیشن تین بڑے دھڑوں میں منقسم ہو کر رہ گئی اور ہر حصہ ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر اسمبلی میں ایک مؤثر حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ انتخابات سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ(ق)پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی تھیں لیکن انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کو عبرت ناک شکست ہوئی، اس کی بنیاد پر ان دونوں جماعتوں کے راستے الگ ہو گئے۔ ایم کیو ایم نے بھی نہ صرف مرکز بلکہ سندھ اسمبلی میں بھی الگ بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کر دیا۔قومی اسمبلی میں سپیکر،ڈپٹی سپیکر اور پھر قائد ایوان یعنی وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی ان تینوں جماعتوں کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف اور الگ تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار یہ کہہ چکے تھے کہ وہ نہ تو انتخابات کے دوران اور نہ ہی انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل میں کسی دوسری پارٹی کو شریک کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ اْنہوں نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کی بجائے اپنا الگ امیدوار کھڑا کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔ ایسا کرنے میں اْن کا واحد مقصدیہ ثابت کرنا تھا کہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو فاصلہ پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس فاصلے کو کم کرنے کا اُن کا کوئی ارادہ نہیں۔ لیکن ایک ہفتہ پہلے پاکستان تحریکِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران ایک مشترکہ لائحہ عمل اور حکمتِ عملی کی ضرورت پر اتفاق کر کے،ایک متحدہ اپوزیشن کے قیام کی طرف پہلا اور اہم قدم اُٹھایا۔ آنے والے دنوں میں یہ تینوں سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ مل کر مزید آگے بڑھ سکتی ہیں۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ان میں مکمل سیاسی ہم آہنگی اور نظریاتی اتحاد کی فضا قائم ہو جائے گی ۔یہ تینوں سیاسی پارٹیاں نہ صرف اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھیں گی بلکہ ایک دوسرے کی ٹر ف پر بھی حملہ آور ہو سکتی ہیں،لیکن پارلیمانی نظامِ حکومت کے تقاضوں کے مطابق ان میں ربط،تعاون اور اشتراک میں اضافہ ہوگا۔ اگر یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو یہ نہ صرف حکومت کی جواب دہی اور احتساب کے لیے ضروری ہوگا،بلکہ اس سے پاکستان میں دوجماعتی پارلیمانی وفاقی نظام کے مستحکم ہونے کی بنیاد بھی پڑے گی۔ پاکستان کی سیاست میں خواہ کتنی ہی تبدیلیاں آئیں یا طوفان اُٹھیں،اس ملک میں آخر کار دوجماعتی پارلیمانی نظام ہی مستحکم ہو گایہ دو جماعتیں کوئی بھی ہو سکتی ہیں۔گذشتہ تقریباً تین دہائیوں سے ہمیں یہ دوجماعتی نظام پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پر مشتمل نظر آرہا تھا۔اب بھی صورتِ حال تقریباً وہی ہے کیوںکہ مسلم لیگ(ن)کے بعد قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن گذشتہ انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو تحریکِ انصاف کی طرف سے سخت چیلنج کا سامنا ہے اورانتخابی سیاست کے جو رجحانات 11مئی کو انتخابات کے روز دیکھنے میں آئے، وہ اگر جاری رہے تو تحریکِ انصاف پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے۔ اب بھی مجموعی طور پر تحریکِ انصاف نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن پارلیمانی سیاست میں اصل اہمیت اسمبلیوں میں حاصل شدہ نشستوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اسی بنا پر قومی اسمبلی میںپیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ کو لیڈر آف دی اپوزیشن مقرر کیا گیا ہے جو کہ پارلیمانی سیاست کی روایت کے عین مطابق ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایوان زیریں میں حکومت کا سامنا کرنے کے لیے تحریکِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کا فیصلہ نہ صرف اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس سے حکومت کو اپنی پرفارمنس بہتر بنانی پڑے گی بلکہ وہ عناصر جو ایک عرصے سے خاموشی کے ساتھ لیکن بڑے منظم طریقے سے پاکستان کے اندر پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔ گذشتہ پانچ برسوں میں سیاستدانوں پر جس طرح الزامات عائد کیے جاتے رہے او رعوام کے ووٹوں سے منتخب ادارے یعنی پارلیمنٹ کو جس تواتر کے ساتھ چوروں،لٹیروں اور دھوکہ بازوں کے ٹولے کے نام سے پکارا گیا اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ پارلیمانی سیاسی نظام کو ڈسکریڈٹ کیا جائے اور قوم کے سامنے صدارتی نظام کو واحد آپشن کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی کوشش کرنے والے عناصر کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن چند ایشوز پر قیام ملک سے اب تک مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے، ان میں پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام کا قیام بھی شامل ہے۔ دوسرے پارلیمانی نظام صرف پاکستانی سیاسی ذہن اور سوچ سے ہی مطابقت نہیں رکھتا بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں یعنی بھارت،بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی پارلیمانی نظام رائج ہے۔سری لنکا میں بھی اب پارلیمانی نظام کو رائج کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں ایک منظم اور مؤثر پارلیمانی اپوزیشن کا قیام 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد عمل میں آیا تھا اور عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہر وردی پاکستان کے پہلے اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔اُنہوں نے مختصر لیکن نہایت اہم اور نازک دور میں پاکستان کے اندر پارلیمانی اپوزیشن کی شاندار روایات قائم کیں۔اور انہی روایات کے مطابق جب وزیراعظم چودھری محمد علی اپنی پارٹی سے اختلاف کی وجہ سے مستعفی ہوئے تو اْن کی جگہ حسین شہید سہروردی کووزیراعظم مقرر کیا گیا۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذکیا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی نظام میں ایک متحدہ اپوزیشن ملک کے سیاسی استحکام اور اِن ہائوس پر امن تبدیلی کی بھی ضامن ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن پارٹیوں یا گروپوں کے درمیان اتحادوتعاون کا فروغ سیاسی عمل کی پختگی کی علامت ہے اس لیے اس جانب جو بھی قدم اُٹھایا جائے گا، اسے پاکستانی عوام اور سنجیدہ حلقے خوش آمدید کہیں گے۔