گلگت بلتستان میں مشہور چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ میں9غیر ملکی سیاحوں اور ان کے ساتھ دو مزید افراد کے سفاکانہ قتل نے یورپی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔صدر آصف علی زرداری ،وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس سانحہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے قومی سانحہ قرار دیا ہے۔قومی اسمبلی نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مقتول غیر ملکی سیاح نانگا پربت کی چوٹی سے کچھ دور بیس کیمپ میں اپنے خیموں میں مقیم تھے کہ آدھی رات کے وقت گلگت سکائوٹس کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے گولیاں برسا کر انہیں ہلاک کر دیا۔ہلاک ہونے والے سیاحوں کا تعلق چین،یوکرائن اور روس سے ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس کالعدم دہشت گرد تنظیم کے نام نہاد ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا کو اطلاع فراہم کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے لیڈر ولی الرحمن کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کی گئی ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات نے جہاں پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے،وہاں اس کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو بڑے حیران کن ہیںاور ان کے اندر چھپی ہوئی حقیقت کو برسرعام لانے میں شاید ابھی کچھ وقت لگے گا۔مثلاًگزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصاًفاٹا اور خیبر پختون خوا میں طالبان سرگرم چلے آرہے ہیںلیکن گلگت بلتستان اور سکردو کا علاقہ ابھی تک ان کی سرگرمیوں سے محفوظ تھا۔ گلگت بلتستان میں تشدد آمیز واقعات کا تعلق بیشتر حالات میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور اختلافات سے رہا ہے اور وہ بھی صرف شہروں کی حد تک۔جس علاقے میں غیر ملکی سیاحوں کے قتل کی یہ واردات ہوئی ہے ان میں طالبان کی موجودگی یا ان کے اثرورسوخ کا دور دور تک نشان نہیں۔یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ طالبان نے اپنی بہیمانہ کارروائی کیلئے اس علاقے کا انتخاب کیا جو ہمیشہ سے پُرامن چلا آرہا تھا اور اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے باعثِ کشش تھا۔ڈرون حملے اور ولی الرحمن کی ہلاکت محض بہانہ ہے ۔اصلی ہدف پاکستان کی سالمیت اور معیشت ہے جس میں گلگت بلتستان اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔گلگت بلتستان کے ذریعے پاکستان کی سرحدیں ایک طرف مقبوضہ کشمیر اور چین سے اور دوسری طرف تاجکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ اس لیے دنیابھر کے سیاح جو تبت اور نیپال سے آکر پاکستان کے خوبصورت شمالی علاقوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے گلگت بلتستان بہترین اور آسان ترین گزرگاہ بھی ہے اور پڑائو بھی۔خود گلگت بلتستان اپنی خوبصورت وادیوں اور بدھ مت دور کی یاد گاروں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے ایک دلکش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔سابق حکومت نے اس مقصد کیلئے گلگت کے ہوائی اڈے کو وسعت دے کر اسے کھٹمنڈوسے پی آئی اے کی براہ راست پرواز کے ذریعے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔دنیا اور خصوصاًایشیا میں سیاحت کو ایک منافع بخش صنعت کی حیثیت سے جس طرح فروغ دیا جا رہا ہے ۔گلگت بلتستان اس کا ایک اہم ھب(Hub)بن سکتا ہے اور اس سے پاکستانی معیشت کو اہم فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کو پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے زمینی روابط میں بھی ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان زمینی تجارت کا واحد روٹ ،قراقرم ہائی وے ،گلگت بلتستان سے ہی گزرتا ہے۔اس شاہراہ کو وسعت دینے کا کام جاری ہے تاکہ یہاں سے بڑے بڑے ٹرک اور ٹرالر گذر سکیں۔حال ہی میں چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے دوران میں چین اور پاکستان کے درمیان سڑک اور ریلوے کے نئے روٹ تعمیر کرنے کے منصوبے پر اتفاق ہوا ہے۔اس منصوبے کے تحت کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو ریل اور سٹرک کے ذریعے درہ خنجراب کے راستے چین کے مغربی علاقوں سے ملا دیا جائے گا۔اس سے چین کیلئے پاکستان ایک ٹریڈ اور انرجی کوریڈور کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔دہشت گردی کی اس واردات کے اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جارہاہے کہ کہیں اس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے زمینی روابط کو نقصان پہنچانا تو نہیں؟یہی وجہ ہے کہ واردات کے فوراً بعد پاکستان میں چینی سفیر نے وزیرداخلہ چودھری نثار سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا اس واردات کا ٹارگٹ چینی تھے؟کیونکہ ہلاک ہونے والے غیر ملکی سیاحوں میں تین چینی سیاح بھی شامل ہیں۔اس پر وزیرداخلہ نے جواب دیا کہ ٹارگٹ چینی باشندے نہیں بلکہ پاکستان تھا۔وزیر داخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے دہشت گردی کی اس واردات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اپنے ایک لیڈر کی شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا ردعمل قرار دیا ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ عرصے سے پاکستان میں چینی اثاثوں اور باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بلکہ چینی حکام کا خیال ہے کہ یہ دہشت گرد گلگت اور بلتستان کے راستے چین میں داخل ہوتے ہیں اس لیے گزشتہ ماہ چینی وزیراعظم کے دورہ کے دوران میں پاکستان اور چین نے دہشت گردی کے خلاف دو طرفہ تعاون کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کیلئے متعدد معاہدوں اور معاہدے کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ان میں سے ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان سے ملنے والی پاک چین سرحد پر چیک پوسٹیں اور بارڈر کنٹرول کے دیگر انتظامات قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اس سرحد سے دہشت گردوں کی آمدورفت کو روکا جائے۔لیکن ان تمام انتظامات کا مقصد پاک چین سرحد پر نگرانی سخت کرنا ہے ۔کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ گلگت بلتستان کی وادیوں اور چوٹیوں پر دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں کریں گے اور خاص طور پر دیگر غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ہمارے دوست چینی سیاحوں کو بھی نشانہ بنائیںگے۔ اس سے ایک بڑا سوال جنم لیتا ہے۔آیا دہشت گردی کی یہ واردات گلگت بلتستان جیسے اہم علاقے میں موجود چینی مزدور اور انجینئرز کو ٹارگٹ کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ تو نہیں ؟اس سوال کے ذہن میں ابھرنے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ ممالک کو ،جن میں ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی شامل ہے ،گلگت بلتستان میں تعمیراتی کام میں مصروف چینیوں کی موجودگی کھٹکتی ہے۔انہیں اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے راستے چین اور پاکستان کے درمیان زمینی رابطہ وسیع ہوتا ہے اور گوادر اور کراچی کے ذریعے چین کے تجارتی تعلقات خلیجی اور افریقی ممالک کے ساتھ فروغ پاتے ہیں تو علاقے کی جیو پالیٹکس یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے گی۔بحیرہ عرب اور بحرِہند ،جو گزشتہ پانچ سو برس سے زائد عرصے سے مغربی ممالک کے فوجی،سیاسی اور اقتصادی کنٹرول میں چلے آرہے ہیں،ان کے زیر اثر نہیں رہیںگے۔اس وقت امریکہ اور بھارت کو لاحق سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ مشرق میں میانمار(برما) اور مغرب میں پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ کے ذریعے چین بحرِہند پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ ایک ایسا ڈرائونا خواب ہے جس نے نئی دہلی اور واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔کیا گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی یہ واردات اس ایجنڈے پر عمل درآمد کی کوشش کا ایک حصہ نہیں جس کا مقصد بحرِ ہند تک رسائی کے حصول کیلئے پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے زمینی روابط کو سبو تاژ کرنا ہے۔