حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارت کا تین روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اْن کا بھارت کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔اگرچہ اس دورے کا مقصد بھارت اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے چوتھے رائونڈ میں شرکت کرنا تھی،تاہم دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کے علاوہ علاقائی مسائل خصوصاََ افغانستان کا مسئلہ اور اْس کے بارے میں بھارتی خدشات بھی یقینا زیرِ بحث آئے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسٹر کیری دوحا(قطر)سے سیدھے نئی دہلی پہنچے تھے۔دوحا میں قطر کے امیر کے تعاون سے 18جون کو طالبان کے سیاسی دفتر کا افتتاح کیا گیا تھا اور جس طرح اس تقریب کی تشہیر کی گئی تھی اْس پر نہ صرف افغان صدر حامد کرزئی نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا تھا بلکہ بھارت میں بھی اس پر تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔بھارتی میڈیا میں اس قسم کے تبصرے اور مضامین شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق امریکہ نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اور وہ افغانستان سے باحفاظت واپسی کیلئے اتنا بے چین ہے کہ اْس نے گذشتہ بارہ سال میں افغانستان کی سیاست، معیشت اور ثقافت میں مثبت اور جمہوری تبدیلیوں کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔جان کیری کے دورے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت کے ان خدشات کو دْور کر دیاجائے بلکہ2014ء کے بعد کے افغانستان میں ایک وسیع تر کردار کیلئے بھارت کو آمادہ کیا جا سکے۔جنوبی ایشیاء‘ مغربی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں بھارت کے کردار پر امریکی پالیسی بالکل واضح ہے۔ اْن کا خیال ہے کہ دْنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک تیزی سے اْبھرتی ہوئی اقتصادی قوت کی بناء پر بھارت جنوبی ایشیاء میں ہی نہیں بلکہ مغرب میں وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان اور مشرق میں انڈوچائنہ اور جنوب مشرقی ایشیاء میں سکیورٹی اور اقتصادی شعبوں میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔امریکہ اس مقصد کے حصول کیلئے گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے کوشاں ہے۔ جہاں تک بھارت امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ اْمور کا تعلق ہے‘ اس کی فہرست بڑی طویل ہے اور ان کا تعلق اگر ایک طرف دونوں ملکوں میں سول نیوکلئیر تعاون سے ہے،تو دوسری طرف تعلیم،صحت اور ماحول کی آلودگی اور آب و ہوامیں تغیر سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی ہے۔ان تمام اْمور کا احاطہ کرتے ہوئے بھارت اور امریکہ نے دوطرفہ مذاکرات کیلئے30کے قریب ورکنگ گروپ قائم کر رکھے ہیں۔ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ہر سالانہ اجلاس میں ان ورکنگ گروپس کی رپورٹوں پر غور کیا جاتا ہے بھارت امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے قیام کو اگرچہ 8برس ہو گئے ہیں، تاہم ابھی تک دونوں ملکوں میں بعض اہم مسائل پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ان مسائل میں انڈو ۔یو۔ایس نیو کلیئر ڈیل پر مکمل عمل درآمد، تجارت،سرمایہ کاری،کلین انرجی ٹیکنالوجی کا استعمال اور امریکہ جانے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھارتی طالب علموں کیلئے امریکی ویزے کی کڑی شرائط شامل ہیں۔ ان مسائل کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ امریکہ بھارتی ریاست گجرات اور آندھرا پردیش میں12ایٹمی ری ایکٹر نصب کرنا چاہتا ہے۔لیکن بھارت نے ابھی تک ان کیلئے امریکہ کو کلیئرنس نہیں دی۔ امریکہ بھارت دو طرفہ تعلقات کے چند ایسے شعبوں میں جن کا تعلق مثلاََ دفاع اور انشورنس سے ہے، امریکہ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔لیکن وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت اپوزیشن پارٹیوں کی مخالفت کی وجہ سے اس پر کوئی فیصلہ کرنے سے ہچکچارہی ہے۔امریکہ کو یہ بھی شکایت ہے کہ وعدے کے برعکس بھارت نے ابھی تک اپنی منڈیوں کو امریکی مصنوعات اور سرمایہ کاری کیلئے نہیں کھولا۔اس کے علاوہ امریکہ بھارت پر یہ بھی زور دے رہا ہے کہ وہ Climate Changeکے شعبے میں تعاون کرتے ہوئے کلین انرجی جنریشنClean Energy Generation ٹیکنالوجی کو استعمال کرے کیوں کہ اس سے بھارت میں امریکی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی راہ کْھل جائے گی۔لیکن بھارت کا موقف یہ ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی ہے۔کیونکہ وہ تیل اور گیس زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ بھارت اس کے بدلے نیو کلیئر سپلائر گروپ NSGکی طرف سے ایٹمی ایندھن کی فراہمی پر عائد پابندیوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔حالانکہ یہ رعایت صرف اْن ملکوںکو دی جا سکتی ہے جو NPTکے ممبر ہیں۔بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اْس کے ساتھ اْسی طرح برتائو کرے جس طرح یہ ادارہ G-5 کے رْکن ممالک یعنی امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس سے کرتا ہے۔ جان کیری نے بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشیدکے ہمراہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی صدارت کرتے ہوئے بھارتی حکام کے ساتھ اپنے مذاکرات میں ان مسائل پر بھر پور انداز میںامریکہ کا موقف پیش کیا ہے۔تاہم بھارت سے روانگی کے موقعہ پر دونوں رہنمائوں کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے درمیان ان اہم مسائل پر اختلافات موجود ہیں۔صرف بھارت نے سول نیو کلئیر تعاون پرعمل درآمد کیلئے آئندہ ستمبر کی تاریخ دی ہے اور دونوں ملکوں کے نکتۂ نظر میں فرق کو کم کرنے کیلئے مزید مذاکرات کی تجویزبھی پیش کی ہے۔ غالباً اسی مقصد کیلئے آئندہ ماہ نائب صدر جوبائیڈن بھارت کے سرکاری دورے پر دہلی آرہے ہیں۔ جان کیری کا دورۂ بھارت ایک ایسے موقع پر وقوع پذیر ہوا جب امریکہ کو جنوبی ایشیاء میں اپنی ڈپلومیٹک ہسٹری کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے یعنی کس طرح ایک محفوظ اور پْر امن افغانستان کی ضمانت حاصل کر کے اپنی فوجوں کو ملک سے باہر نکالا جائے۔اس مقصد کیلئے اگر ایک طرف امریکہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو دوسری طرف بھارت اور پاکستان کے تعاون اور مدد کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔دراصل امریکہ افغانستان کے مسئلے پر ایک علاقائی اتفاق رائے (Consensus) پیدا کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ یہ بات اب سب پر واضح ہے کہ2014ء کے بعد افغانستان میں امن اور سلامتی کے قیام کیلئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے کردارکو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور بھارت اس زمرے میں آتے ہیں۔ امریکی ڈپلومیسی کا ٹارگٹ یہ ہے کہ اس کیلئے پاکستان اور بھارت دونوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ جان کیری کا دورۂ بھارت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور پاکستان افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز کا دورۂ پاکستان اور اس دورے کے دوران میں اْن کی وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ملاقات کا تعلق بھی اسی مشن سے ہے۔یہ ملاقات جو اسلام آباد میں ہوئی اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات اب یقینی ہیں اور پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ اس عمل میں اْسے بالکل الگ تھلگ نہ کیا جائے اسی لیے اس ملاقات کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے صاف صاف کہا ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرکے جنوبی ایشیاء اور افغانستان میں امن کا حصول ممکن نہیں۔