تقریباً سات ماہ کے تعطل کے بعد پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے باہمی رابطوں کا آغاز کیا ہے۔اسی سلسلے میں سابق سیکرٹری خارجہ شہر یار خاں نے حال ہی میں نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی ۔شہر یارخاں جنہیں وزیراعظم محمد نواز شریف نے پاک بھارت بیک چینل ڈپلومیسی کیلئے فوکل پرسن مقرر کیا ہے ، بھارت کے سفارتی حلقوں میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیںاور اْنہیں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کو واپس ٹریک پر لانے کیلئے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز اور بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کی ایک حالیہ ملاقات کو بھی بڑا دخل ہے جو برونائی میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پاک بھارت مذاکرات کے عمل کو جو اس سال جنوری میں لائن آف کنڑول پر جھڑپوں کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا،دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔لیکن مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار کرنے میں اصل کردار وزیراعظم نواز شریف اور اْن کے ہم منصب من موہن سنگھ کا ہے۔11مئی کے انتخابات سے پہلے نواز شریف نے بھارتی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے خصوصاً تجارت اور اقتصادی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے حق میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا اْن کا بھارت کے سرکاری حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا تھا؛بلکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ تو اس حد تک متاثر ہوئے تھے کہ اْنہوں نے انتخابات میں جونہی پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی کامیابی کے آثار دیکھے ،جناب نواز شریف کو مبارک باد کا پیغام بھجوا دیا ۔صرف یہی نہیں بلکہ خصوصی ایلچی کی حیثیت سے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ستندر لانبا کوپاکستان بھیجا جنہوں نے رائے ونڈ میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی اور اْنہیں بھارتی وزیراعظم کا پیغام دیا۔یہ اقدام پروٹوکول سے ہٹ کر تھا جس سے دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین قیادت کی باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے گہری دلچسپی اور سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق من موہن سنگھ کی حکومت ان مذاکرات کے بارے میں کافی پُر اُمید ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں :ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے حملوں میں بھارتی فوج کے آٹھ جوانوں کی ہلاکت کے باوجودبھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ وادی میں عسکریت پسندی (Militancy)کی سطح گذشتہ برس یعنی 2012ء میں 34فیصد حد تک کم ہوئی ہے۔اس کے علاوہ ماضی قریب میں لائن آف کنڑول عبور کر کے مجاہدین کی مقبوضہ کشمیر میں دخل اندازی کا بھی کوئی بڑا واقعہ بھارتی حکام کے نوٹس میں نہیں آیا۔اس لیے بھارتی حکومت سمجھتی ہے کہ مذاکرات شروع کرنے کیلئے یہ مناسب ترین موقع ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں وزیراعظم نواز شریف کی پارٹی کو عوام نے بھاری مینڈیٹ سے کامیابی دلائی ہے۔ قومی اسمبلی میں واضح اکثریت کے ساتھ وہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے سربراہ ہیں۔ڈاکٹر من موہن سنگھ کے برعکس جنہیں ہر معاملے میں اپوزیشن بی جے پی کی تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،نواز شریف کو قومی اسمبلی کے اندر یا باہر جارحانہ اپوزیشن کا سامنا نہیں بلکہ انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی تمام قومی اور علاقائی پارٹیاں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے حق میں ہیں۔ان حقائق کی روشنی میں بھارتی حکام کو یقین ہے کہ نواز شریف اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پْورے اعتماد کے ساتھ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کیلئے اہم فیصلے کر سکیںگے۔ اس بار جب دو طرفہ مذاکرات کا عمل شروع ہو گا تو ماضی کے مقابلے میں یہ اس حد تک ضرور مختلف ہو گا کہ سرکاری سطح پر طے شْدہ اوپن ڈپلومیسی فریم ورک یعنی ڈائیلاگ پراسیس کے علاوہ بیک چینل ڈپلومیسی کا طریقہ بھی بیک وقت رْوبہ عمل ہو گا جس میں پاکستان کی طرف سے شہر یار خان حصہ لیں گے۔ بیک چینل ڈپلومیسی کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان اب تک ہونے والے امن مذاکرات میں صرفCBMsیعنی اعتماد سازی کے اقدامات میں پیش قدمی ہوئی ہے۔مثلاًدو طرفہ تجارت،ریل،روڈ اور ہوائی مواصلات میں ترقی ،اس میں منابائو کا ریل لنک ،امرتسر،لاہوراور ننکانہ کے درمیان بس سروس کا اجرا بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ مظفرآباد،سری نگر،راولا کوٹ اور پونچھ کے راستے بس اور ٹرک سروس کا آغاز،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان تجارت کی اجازت بھی اہمیت کے حامل ہیں۔سب سے نمایاں پیش رفت عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان روابط کا فروغ ہے جن کے تحت گذشتہ چند برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان صحافیوں ،دانشوروں،تاجروں،آرٹسٹوں، طلباء ،اساتذہ اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور وفود کا تبادلہ ہوا۔پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں مذاکراتی عمل نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔اس ضمن میں ویزا شرائط میں نرمی کا فیصلہ خصوصاََ قابل ذکر ہے جس کے تحت اب 65سال سے زائد عمر کے پاکستانی شہری واہگہ پہنچ کر ویزا حاصل کر سکتے ہیں ۔امن مذاکرات کا یہ عمل اگر مسلسل جاری رہتا اور 2008ء میں ممبئی دہشت گردحملوں اور جنوری2013ء میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کی وجہ سے تعطل کا شکار نہ ہوتا تو نہ صرف طے شدہ اعتماد ساز اقدامات پر عمل درآمد کی رفتار تیز ہوتی بلکہ نئے اقدامات پر بھی اتفاق ہوگیا ہوتا۔ان میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا مسئلہ بھی شامل ہے جس پر فیصلہ ہونے کے باوجود ابھی تک عمل درآمدنہیں ہوا۔اُمید ہے کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی طے ہو جائے گا۔ لیکن جہاں تک باہمی تنازعات مثلاََ کشمیر،سیاچن،سرکریک اور پانی جیسے مسائل کا تعلق ہے،ایک طویل عرصہ سے جاری بات چیت میں اُن کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی اور یہی ناکامی مذاکراتی عمل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔خوش قسمتی سے دونوں ممالک اس حقیقت سے آگاہ ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک اہم تنازعات خصوصاََ کشمیر جیسے مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی نہیں ہوتی،پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا عمل ہمیشہ خطرے میں رہے گا۔ مذاکرات کا یہ عمل اپنی ناکامیوں اور خامیوں کے باوجود ایک ایسی سطح پر پہنچ چْکا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کوئی بھی اس سے دستبردار نہیںہونا چاہتا۔یہی وجہ ہے کہ بار بار تعطل اور کشیدگی کے باوجود ہر پاکستانی اور بھارتی حکومت نے اسے جاری رکھنے کی حمایت کی ہے اور اس کے ساتھ ہی تنازعات کے حل کیلئے بیک چینل ڈپلومیسی کے طریقے کو بھی آزمانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بیک چینل ڈپلومیسی کا فائدہ یہ ہے کہ میڈیا کی تیزنظروں سے دْور غیر سرکاری ماہرین کا ایک گروپ ان مسائل کے تمام پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھ کر تفصیلی بحث کرتا ہے اور پھر اسی بحث کی روشنی میں متفقہ تجاویز تیار کر کے اپنی اپنی حکومت کو پیش کرتا ہے۔ حکومتی نمائندے اپنی کھلی اور رسمی گفتگو میں ان تجاویز پر مبنی موقف اختیار کر کے فیصلے کرتے ہیں۔البتہ ان فیصلوں کو تسلیم کرنے یا ان پر عمل درآمد کرنا حکومت کے اختیارات میں شامل ہوتا ہے۔ ماضی میں بیک چینل ڈپلومیسی نے متعدد مشکل اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد دی ہے۔امید ہے کہ اس دفعہ بیک چینل ڈپلومیسی میں دونوں ممالک کشمیر کے علاوہ سیاچن اور سرکریک پر فوکس کریں گے۔غالب امکان یہی ہے کہ سیاچن اور سرکریک جن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تقریباً اتفاق رائے ہو چکا ہے،کے معاہدات کے مسودوں کو آخری شکل دے دی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ان پر دستخط کرنے کیلئے بھارتی وزیراعظم جنہیں وزیراعظم نواز شریف پاکستان کے دورے کیلئے پہلے ہی مدعو کر چْکے ہیں ،اس سال کے آخر یا اگلے سال کے شروع میں پاکستان تشریف لائیں ۔اْن کا دورہ پاک ،بھارت تعلقات میں ایک بہت بڑا بریک تھرو اور وزیراعظم نواز شریف کی علاقائی امن ڈپلومیسی کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہوگا۔