مرکز میں برسرِاقتدار اور ایک صوبے میں شریک اقتدار پاکستان مسلم لیگ (ن)نے حکومت سنبھالتے ہی بڑے جوش وخروش اور ولولہ انگیز جذبے کے تحت ملک میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعلان کیا اور اس مقصد کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔کانفرنس کیلئے12جولائی کی تاریخ دی گئی لیکن مجوزہ کانفرنس کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا یا کم از کم مستقبل قریب میں اس کے انعقاد کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری پولیٹیکل کلاس کا‘ جس میں ساری جماعتیں شامل ہیں،دہشت گردی کے مسئلے کے بارے میں رویہ کتنا غیر سنجیدہ ہے۔نئی حکومت کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلا اہم اقدام تھا جو بدقسمتی سے نہ کیا جا سکا۔اس حکومت کی ساکھ کے لیے اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں امن،سلامتی اور استحکام کے قیام کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہیں۔ خصوصاً اس مرحلے پر جب پوری قوم ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کی نظریں بھی وزیراعظم نواز شریف کی حکومت پر ٹکی ہیں کہ وہ انتخابات میں عوام کی سیاسی تائید حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اور جرات مندانہ قدم اٹھائیں گے۔آل پارٹیز کانفرنس کا فیصلہ کرتے وقت حکومت کو امید تھی کہ دوسری پارٹیاں اس کا خیر مقدم کریں گی۔ حکومت کی یہ توقع بے جا نہیں تھی۔کیونکہ متعدد سیاسی پارٹیوں‘ جن میں جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) شامل ہیں، نے خود ایسی کانفرنس کا مطالبہ کیا تھا۔ انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں مسلم لیگ(ن)اور صوبہ خیبر پختون خوا (کے پی کے) میں تحریکِ انصاف کی حکومت تشکیل پانے کے باوجود دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی نہیں آئی۔ اُلٹا ان میں اضافہ ہی ہوا ہے‘ خصوصاً کے پی کے میں‘ جہاں انتخابات کے بعد ایک ماہ کے عرصہ کے دوران میں دہشت گردی کی 21سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں اور119سے زائد افراد‘ جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے دو اراکین صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں،ہلاک ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک جامع حکمتِ عملی تیا ر کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جس میں آرمی چیف کو بھی مدعو کیا جائے۔عمران خان کا یہ مطالبہ دہشت گردی کے مسئلے پر ان کے سابق موقف سے یکسر مختلف تھا کیوں کہ ایک عرصہ سے خان صاحب دہشت گردی کو ایک خطرناک چیلنج سمجھنے کی بجائے،اسے محض ڈرون حملوں کا ردِعمل ہی قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سبب افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی ہے۔ جس دن یہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی‘ ڈرون حملے بند ہو جائیں گے اور پاکستان میں دہشت گردی اورخود کش حملے بھی بند ہوجائیں گے۔لیکن ان کی پارٹی پر دہشت گردوں کے حملوں نے عمران خان کو بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ دہشت گردی کی جڑیں خود پاکستان میں ہیں اور یہ جڑیں بہت گہری ہیں۔ انہیں اکھاڑنا ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں۔اس کے لیے سب کو مل کر ایک واضح اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔اس مقصد کیلئے آل پارٹیز کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ بعض لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس اس لیے تاخیرکا شکارہوئی کہ اس کے لیے دیگر شرکاء سے جتنی مشاورت کی ضرورت تھی،وہ نہیں کی گئی۔کچھ لوگ وزیراعظم کی مصروفیات‘ جن میں چین کا دورہ بھی شامل ہے،کو اس تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ہو سکتا ہے یہ وجوہ کسی حد تک درست ہوں لیکن اصل وجوہ کچھ اور ہیں۔ان میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں دہشت گردی کے مسئلے کی نوعیت‘ اس کے اسباب اور اس کے سدباب کے لیے ایک مؤثر اور جامع حکمتِ عملی کی ضرورت پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔کچھ سیاسی پارٹیاں دہشت گردوں کو ہیرو مانتی ہیں۔چند کا رویہ ان کے بارے میں معذرت خواہانہ ہے بلکہ وہ ان کی کارروائیوں کا دفاع کرتی ہیں اور دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوںکی ذمہ داری امریکہ،اسرائیل اور بھارت پر ڈال رہی ہیں۔کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو دہشت گردی کی مخالف ہونے کے باوجود،دہشت گردوں کے خلاف اس خوف کی وجہ سے زبان کھولنے پر آمادہ نہیں کہ کہیںوہ خود اِن کے حملوں کا شکار نہ ہو جائیں۔جب تک پارٹیوں میں دہشت گردی کے مسئلے کی نوعیت،اس کے اسباب اور اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر اختلافات پر قابو نہیں پایا جاتا،دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی اقدام‘ خواہ وہ آل پارٹیز کانفرنس ہی کیوں نہ ہو،کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس کا ثبوت ہمیں اس سے قبل منعقدہ دو آل پارٹیز کانفرنسوں کی ناکامی کی صورت میں مل چکا ہے۔ان میں سے ایک کانفرنس کا یہ حال تھا کہ اس میں شرکا دہشت گردوں کو دہشت گرد کہنے پر تیار نہیں تھے۔دوسری کانفرنس میں بعض اہم سیاسی پارٹیوں نے شرکت ہی نہیں کی۔ سیاسی پارٹیوں میں ان اختلافات کی وجہ سے دہشت گردوں کو حوصلہ ملا ہے اور وہ پہلے کے مقابلے میں تواتر کے ساتھ زیادہ تباہ کن حملے کر رہے ہیں اور اب وہ اپنے حملوں میں تمام سیاسی پارٹیوں کو بلا امتیاز نشانہ بنا رہے ہیں ۔اس صورت حال نے سیاسی پارٹیوں کو یقینا اپنے سابقہ موقف پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے اور اب دہشت گردی کو اس کے اصل سیاق وسباق میں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔سیاسی پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا یہ مناسب ترین موقعہ ہے۔ اس میں حکومت فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔غالباً حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے قائدانہ کردار اداکرنا پڑے گا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ نہ تو عام آدمی کے پاس ہیں اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے پاس ہیں۔بلکہ ملک کے صوبے بھی،باوجود اس بات کے کہ آئین کے مطابق امن وامان کے قیام کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے‘ امداد کے لیے وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اگرچہ صوبوں کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اور امن و امان کے قیام کی خاطر ہر قسم کی امداد اور تعاون کا یقین دلایا ہے،کوئی بھی اقدام اس سمت میں اس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہو سکتا جب تک تمام سیاسی پارٹیاں متفقہ طور پر دہشت گردی کی مذمت نہیں کرتیںاور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک مشترکہ اور جامع حکمتِ عملی پر متفق نہیں ہو جاتیں۔کسی بھی آل پارٹیز کانفرنس کا یہ اولین ہدف ہونا چاہیے۔