پاکستان پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خالق سینیٹر رضا ربانی نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے آئینی مدت کے اندر مشترکہ مفادات کونسل (CCI)کی تشکیل نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جواب میں حکومت نے کونسل کی تشکیل کا اعلان کرکے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ رضا ربانی نے بعض شواہد کی بنا پر خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو جو وسیع اختیارات دیئے گئے تھے انہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کم کیا جارہا ہے؛ بلکہ عملی طورپرون یونٹ بحال کیا جارہا ہے۔ یادرہے کہ 1955ء میں مغربی پاکستان میں تمام صوبوں اور ریاستوں کو ضم کرکے ایک انتظامی یونٹ قائم کیا گیا تھا جسے ون یونٹ کا نام دیا گیا۔ چھوٹے صوبوں میں ون یونٹ کو کبھی بھی پزیرائی حاصل نہیں رہی؛ چنانچہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں یکم جولائی 1970ء کو ون یونٹ ختم کرکے پرانے صوبے بحال کردیئے گئے۔ برصغیر پاک وہند کی سیاسی تاریخ میں جتنا اہم کردار صوبائی خودمختاری کے مسئلے نے ادا کیا، شاید ہی کسی اور مسئلے نے ایسا کیا ہو۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان صوبائی خودمختاری کے سوال پر سمجھوتہ نہ ہونے سے ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی۔ مسلم لیگ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینا چاہتی تھی جبکہ کانگریس ہندوسرمایہ دار طبقے کی نمائندہ جماعت ہونے کی وجہ سے مضبوط مرکز کی حامی تھی تاکہ اس کی بناپر ہندوستان کے تمام خطوں کے وسائل اور ملک گیر مارکیٹ کا استحصال کرسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی مسلم لیگ جو تقسیم ہند سے پہلے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کے حق میں تھی، قیام پاکستان کے بعد مضبوط مرکز کی حمایت کرنے لگی۔ اسی وجہ سے آئین سازی میں تاخیر ہوئی۔ بالآخر 1956ء کے آئین پر اتفاق ہوا جس کے بارے میں حسین شہید سہروردی کا دعویٰ تھا کہ اس میں صوبائی خودمختاری کا 90فیصد مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں 1956ء کے آئین کے تحت فیڈرل سسٹم میں صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو کہیں زیادہ اختیارات حاصل تھے۔ خاص طورپر انتظامی اور مالی امور میں۔ اس کے باوجود اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایوب خان 1955ء میں اس آئین کو منسوخ کرکے مارشل لاء نہ نافذ کرتے تو مشرقی پاکستان نہ علیحدہ ہوتا۔ کیونکہ جمہوری اور سیاسی حکومتوں کے دور میں صوبائی خودمختاری کے مسئلے پر اختلافات باہمی مذاکرات اور آئینی ترامیم کے ذریعے حل کیے جاسکتے تھے۔ 1968-69ء میں ایوب خاں کے خلاف ملک کے دونوں حصوں میں جاری عوام کی احتجاجی تحریک کا سب سے بڑا مطالبہ پارلیمانی نظام حکومت کی بحالی اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری تھا۔ مشرقی پاکستان میں یہ مطالبہ شیخ مجیب الرحمن کے 6نکاتی پروگرام کی شکل میں سامنے آیا جبکہ مغربی پاکستان میں اس مطالبے کے تحت ون یونٹ کے خاتمے اور پرانے صوبے بحال کرنے کے حق میں تحریک جاری تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں جنوری 1972ء سے اپریل 1973ء تک نئے آئین کی تشکیل کیلئے جومذاکرات ہوئے ان میں سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ صوبائی خودمختاری کا تھا۔ بھٹو صاحب اگرچہ ذاتی طورپر صدارتی نظام حکومت اور مضبوط مرکز کے حامی تھے (جب یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑاتو بھٹو صاحب نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی ) لیکن ایک ذہین اور دوراندیش سیاستدان کی طرح انہیں بالآخر باقی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے پارلیمانی نظام حکومت اور وسیع تر صوبائی خودمختاری پر اصرار کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اگر پوچھا جائے کہ 1973ء کے آئین کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ عوامی حاکمیت کا مظہر پارلیمانی نظام اور صوبائی خودمختاری اس کا سب سے اہم پہلو ہیں۔ اسی بناء پر جناب بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ 1973ء کے آئین میں صوبائی خودمختاری کے مسئلے کو مکمل طورپر حل کردیا گیا ہے۔ ایک حدتک ان کا یہ کہنا درست تھا۔ کیونکہ 1956ء کے آئین کے مقابلے میں 1973ء کے آئین میں صوبوں کو زیادہ اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ اور اب اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو مزید اختیارات حاصل ہوگئے ہیں کیوں کہ کنکرنٹ لسٹ ختم کردی گئی ہے اور بہت سے محکمے مرکز سے صوبوں کو منتقل کردیئے گئے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ نہیں کہ آئین میں کیا لکھا ہے۔ اگر آئینی دفعات کو پیش نظر رکھیں تو ہمارا آئین بھارتی آئین کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہے اور اس میں صوبوں کو زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان دفعات پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں ؟ بدقسمتی سے اس معاملے میں ہمارا ریکارڈ قابل رشک نہیں ہے اور اسلام آباد میں بیٹھ کر کیے جانے والے فیصلے اور احکامات اکثر وبیشتر نہ صرف آئین کی روح کے منافی ہوتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں آئینی دفعات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اگرچہ اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی‘ لیکن ملک میں اب بھی ایسی قوتیں (خصوصاً بیوروکریسی) موجود ہیں جنہوں نے اٹھارہویں ترمیم کو دل سے قبول نہیں کیا۔ سینیٹر رضا ربانی کا اشارہ غالباً اسی مائنڈ سیٹ کی طرف تھا جو ہر آنے والی حکومت کے فیصلہ سازی کے عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ رضا ربانی نے اگرچہ ان شواہد کا ذکر نہیں کیا جن کی بناء پر انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم کچھ عرصہ پیشتر پیپلزپارٹی نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس الزام کی بنیاد مرکزی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو یہ ہدایت تھی کہ کراچی میں ایک ماہ کے اندر امن وامان کا مسئلہ حل کیا جائے پیپلزپارٹی نے اسے الٹی میٹم قرار دے کر مذمت کی تھی ۔ سندھ حکومت کو یہ بھی شکایت ہے کہ قدرتی وسائل یعنی گیس اور کوئلہ کے بارے میں بیرونی ممالک سے منصوبے طے کرتے وقت ان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ یادرہے کہ اس وقت گیس کی پیداوار میں سندھ بلوچستان سے آگے ہے اور صوبے میں کوئلے کے علاوہ گیس کے مزید ذخائر دریافت ہونے کی امید ہے۔ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر اگرچہ سندھ 1991ء کے معاہدے کو تسلیم کرتا ہے تاہم اسے شکایت ہے کہ اسی معاہدے کے تحت اس کے حصے کا پانی سندھ کو نہیں مل رہا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI)کی بروقت تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے شکوک وشبہات پیدا ہوئے؛ تاہم حکومت کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی کو مطمئن ہوجانا چاہیے باقی مسائل بھی گفت وشنید کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن مضبوط مرکز کے حامی مائنڈ سیٹ کی موجودگی میں ایسے اقدامات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا جن کا مقصد پورے ملک پر ایک ہی پارٹی کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ امید ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے اجتناب کرے گی۔