ایک اطلاع کے مطابق وزیرِاعظم نواز شریف کی ہدایت پر وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی آئی بی نے لیاری (کراچی ) سے ہزاروں کی تعداد میں مجبوراً نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی حالت زار اور اس کے پیچھے کار فرما عوامل کا جائزہ لینے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سندھ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران میں انہوں نے اعلیٰ سول اور رینجرز حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں۔ حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے انہوں نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں کراچی کے علاقے لیاری میں دو گروپوں کے درمیان مسلسل تصادم اور فائرنگ کی وجہ سے متعدد خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بدین اور ٹھٹھہ میں پناہ لینا پڑی۔ ان مجبور اور بے کس لوگوں کے پاس سرچھپانے کی کوئی جگہ نہیں اور انہیں سکولوں اور درگاہوں میں پناہ لینا پڑی۔ سندھ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر انہوں نے وفاقی حکومت سے مدد کی اپیل کی جس کے جواب میں وزیراعظم نے مذکورہ بالا افسران کو کراچی جاکر حالات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت سندھ نے اس اقدام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے صوبے کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ کراچی اور خصوصاً لیاری کے مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں مخلص ہے تو اسے سندھ کی حکومت سے مل کر کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وفاقی حکومت کا اقدام مناسب ہے یا نہیں، یا حکومت سندھ کے اعتراضات کہاں تک درست ہیں، یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ لیاری کے عوام ایک عرصے سے عذاب میں مبتلا ہیں اور سندھ کی حکومت انہیں اس سے نجات دلانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کی کارکردگی بھی قابل رشک نہیں۔ اس کا اندازہ ملک کے دیگر علاقوں میں آئی ڈی پیز کے کچھ سابقہ اور کچھ حالیہ مسائل کی بدستور موجودگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر 1960ء کے عشرے میں عمل میں آئی تھی۔ اس سے تقریباً 81ہزار افراد بے گھر ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اب بھی متبادل جگہ کی تلاش اور انصاف کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح 1970ء کی دہائی میں تعمیر ہونے والے تربیلا ڈیم کے متاثرین کی نئی جگہوں پر آبادکاری کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد، مسلح گروپوں کی آپس میں لڑائی اور سکیورٹی فورسز کے آپریشن نے ملک کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کی ایک مثال جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کے ہزاروں خاندانوں کی ہے جنہیں طالبان کی سختیوں اور 2004ء کے فوجی آپریشن نے اپنا گھر بار اور مال مویشی چھوڑ کر صوبہ پختون خوا کے مختلف شہروں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ محسودقبیلے کے ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں بھی آباد ہے۔ اپنے وطن سے پیار ہونے کے باوجود یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ آنے کو تیار نہیں کیونکہ بقول ان کے طالبان اب بھی اردگرد کے پہاڑوں پر اپنے محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے ہیں اور فوج کے نکلنے کے بعد مقامی آبادی کو دوبارہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی ایک اہم سڑک کے افتتاح کے لیے جنوبی وزیرستان تشریف لے گئے تھے اور انہوں نے نقل مکانی کرنے والے محسود قبیلے کے لوگوں کو واپس اپنے گھر لوٹ آنے کی اپیل کی تھی۔ ان کی اپیل اور فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے واپس آنے والے ہرخاندان کے لیے چارلاکھ روپے کے امدادی پیکج کے باوجود بہت کم محسود طالبان کے خوف سے واپس آنے پر آمادہ ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اسی قسم کا اہتمام اور سہولتوں کی پیش کش ڈیرہ بگتی کے ان ایک لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو میسر نہیں جنہیں سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں کیے گئے ملٹری آپریشن کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑ کر نصیر آباد اور جعفر آباد کے علاقوں میں پناہ لینا پڑی۔ وہ ابھی تک ان علاقوں میں آباد ہیں اور واپس اپنے علاقوں میں جانا چاہتے ہیں ۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے بھی بار بار مطالبہ کیا ہے کہ ان بے گھر لوگوں کو واپس ڈیرہ بگتی جانے دیا جائے لیکن لگتا ہے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس پر راضی نہیں ہے۔ گھر سے بے گھر ہونے والے لٹے پٹے پاکستانی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی ایک تازہ اور انتہائی اندوہ ناک مثال خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی سے ایک لاکھ کے قریب ہجرت کرنے والے خاندانوں کی ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اہم اس وادی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چار تشدد پسند گروپ لشکر اسلام، انصار الاسلام، توحید الاسلام اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان خونریز لڑائی نے مقامی لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان میں سے چند خاندانوں نے پشاور سے 35کلومیٹر دور واقع جلوزئی کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔ لیکن تقریباً ڈھائی لاکھ خاندانوں میں سے 90فیصد نے کیمپ سے باہر مختلف جگہوں پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں یا اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ بے گھر افراد کی دوبارہ آبادکاری کے ضمن میں نسبتاً بہتر حکومتی کارکردگی کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ قدرتی تباہ کاریاں ہیں جہاں پاکستان کو اقوام متحدہ یا بین الاقوامی برادری سے بھرپور امداد موصول ہوئی تھی۔ مثلاً 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب‘ اگرچہ ان آفات سے متاثرہ ہزاروں خاندان اب بھی آبادکاری کے منتظر ہیں۔ لیکن دہشت گردی اور ملٹری آپریشنوں سے بے گھر افراد کو ریلیف دینے یا انہیں واپس اپنے گھروں میں آباد کرنے میں خواہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں انتہائی بے اعتناعی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ تیراہ وادی سے جو لوگ بے گھر ہوکر صوبہ خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ان میں 50فیصد تعداد بچوں کی ہے جبکہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہی دو طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح ڈیرہ بگتی سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خوراک کی قلت اور صحت کی ناکافی سہولیات جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن حکومت ہو یا سیاسی پارٹیاں سبھی ان مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کرنے کی بجائے ان پر سیاست کرتی ہیں۔ لیاری کے متاثرین کا کیس اس سے مستثنیٰ نہیں۔ وفاقی حکومت کی صرف اس مسئلے میں غیرمعمولی دلچسپی اور سندھ حکومت کی جانب سے اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے کی بجائے مرکز کی نیت پر شبے کا اظہار، ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو مصیبت میں گرفتار لوگوں کی مدد کو پہنچنے کی بجائے اپنے اپنے گروہی اور پارٹی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔