"DRA" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات اور علاقائی امن

چند دن پیشتر وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک بریفنگ میں شرکت کی تھی۔ بریفنگ میں سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم اوران کی ٹیم کو ملک کی خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا۔ خصوصاً جنوبی ایشیا کے خطے کی صورت حال اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا۔ اپنے ریمارکس میں وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں امن کے حصول کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ اگر خطے میں امن نہیں ہو گا تو ترقی اور خوشحال کے قومی اہداف کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ اسی سلسلے میں انہوں نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر خاص طور پر زور دیا۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار وزیراعظم نے پہلی بار نہیں کیا‘ بلکہ انہوں نے ابھی وزارت عظمیٰ کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ امن کی خاطر تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اقتصادی شعبے اور تجارت میں قریبی تعاون قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وزیراعظم نے بھارت کے ساتھ چینل ٹو ڈپلومیسی بحال کی اور سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خاں کو دہلی بھیجا جہاں انہوں نے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، وزیر خارجہ سلمان خورشید اور دیگر سینئر بھارتی افسران سے ملاقاتیں کیں۔ اسی پالیسی کے تحت وزیراعظم نے اپنے خصوصی مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی جناب سرتاج عزیز کو کابل بھیجا۔ جہاں انہوں نے صدر حامد کرزئی کے علاوہ وزیر خارجہ زلمے رسول اور اعلیٰ امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین برہانی سے ملاقاتیں کیں۔ کابل میں افغان وزیر خارجہ کے ہمراہ جناب سرتاج عزیز نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے دورے کا سب سے اہم مقصد صدر کرزئی کو وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دینا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دورے کے دوران میں افغان حکام کے ساتھ دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات خصوصاً تجارت کو فروغ دینے اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کی منڈیوں تک پاکستان کی رسائی کے حصول پر بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ پریس کانفرنس اور افغان حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران جناب سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور صلح کے عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اس سلسلے میں جناب سرتاج عزیز نے کوئی نئی بات نہیں کی اور اس ضمن میں وہی موقف دہرایا جسے پوری دنیا گزشتہ دس برس سے سنتی آرہی ہے اور اسے ناکافی اور مبہم سمجھ کر پاکستان کی نیت پر شک کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دورہ افغانستان تقریباً ناکام رہا۔ افغانستان میں امن کا مسئلہ تو بڑی دور کی بات ہے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ صدر کرزئی نے دورہ پاکستان کی دعوت اصولی طور پر تو قبول کر لی لیکن کوئی تاریخ نہیں دی۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرے۔ اس وقت افغانستان میں امن مذاکرات کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے نزدیک افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں مدد دینے کی بجائے پاکستان رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مُلّا برادر جیسے طالبان رہنما جو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، پاکستان کی جیلوں میں بند ہیں اور پاکستان اُنہیں جان بوجھ کر رہا نہیں کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علاقائی امن کا انحصار بہت حد تک خطے میں موجود ممالک کے درمیان بہتر دو طرفہ تعلقات پر ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میں موجودہ حکومت کی یہ پالیسی درست ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری لا کر خطے میں پُر امن ماحول قائم کیا جائے تاکہ تمام ممالک آپس میں تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر اپنے ہاں بلکہ پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کی لہر لا سکیں۔ لیکن پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسی اپروچ اختیار کر کے مذکورہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ مثلاً چین اور پاکستان کے درمیان کوئی قابل ذکر تنازعہ نہیں اس لیے اس کے ساتھ تعلقات کو وسیع اور گہرا کرنے کے لیے دو طرفہ اپروچ (Bilateral Approach) بالکل صحیح حکمت عملی ہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات پر فوکس کر کے ہم خطے میں امن کی فضا کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ جہاں دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانا ضروری ہے وہاں دونوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے کوشش بھی ناگزیر ہے۔ اس سے زیادہ پیچیدہ اور نازک صورت حال پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات میں در پیش ہے۔ اگر ہم دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات، خصوصاً تجارت کا جائزہ لیں تو گزشتہ ایک دہائی میں اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان کوئی چپقلش، بد گمانی یا دوری نہیں بلکہ پاک، افغان سرحد کو 55ہزار سے زائد افراد روزانہ اپنی مختلف ضروریات پوری کرنے کے لیے بہ آسانی عبور کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں تاجروں کے علاوہ ایک بڑی تعداد طالب علموں، مزدوروں اور علاج کے متلاشی مریضوں کی بھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مکمل بھائی چارہ ہے۔ جہاں تک حکومتی سطح پر رابطوں، معاہدوں اور سہولتوں کا تعلق ہے اس میں بھی کوئی کمی نہیں۔ اس کی اہم مثالوں میں پاکستان کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کو ٹرکوں کے ذریعے رسد پہنچانے‘ 2010ء کا پاک افغان معاہدہ برائے ٹرانزٹ ٹرید اور واہگہ کے راستے افغانستان کو اپنا تجارتی مال بھارت بھیجنے کی سہولت شامل ہے۔ مسئلہ تو طالبان کا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور دونوں کے درمیان بد گمانی، شکوک و شبہات بلکہ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان طالبان کی پُشت پناہی کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرف سے متواتر انکار کے باجود بین الاقوامی سطح پر افغانستان کے موقف کی زیادہ پذیرائی ہے جو افغانستان کے اندر پاکستان مخالف جذبات شدت اختیار کر رہے ہیں اور آئے دن افغانستان کے شہروں میں جلوسوں کی صورت میں اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اگر افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں امن بحال کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے مختلف بلکہ ماضی سے ہٹ کر اپروچ اپنانا ہو گی جس کا مرکزی نکتہ اسی تاثر(Perception) کو زائل کرنا ہے کہ پاکستان طالبان کی پُشت پناہی کر رہا ہے یا امن کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو صرف اور صرف افغانستان کی حکومت سے سروکار ہونا چاہیے جس کے سربراہ حامد کرزئی ہیں۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں کسی افغان گروہ خواہ وہ طالبان ہی کیوں نہ ہوں پرکلیتاً انحصار سے احتراز کرنا چاہیے ورنہ پاکستان کو ایک دفعہ پھر اسی طرح پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح 1988ء میں جنیوا معاہدہ کے موقع پر جنرل ضیاء الحق کو کرنا پڑا تھا جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’ کوئلوں کی دلالی میں ہمارا منہ کالا ہو گیا ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں