وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں گزشتہ دنوں کراچی میں تھے ۔ ان کے دورے کا مقصد شہر میں امن وامان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لینا تھا۔ اس دوران میں انہوں نے ایک بات زور دے کر کہی کہ امن وامان یعنی لاء اینڈ آرڈر کے قیام کی بنیادی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے تاہم مرکزی حکومت قومی سلامتی کو لاحق خطرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ اس سے قبل سابق حکومت کے وزیرداخلہ رحمن ملک بھی بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اچانک غائب ہوجانے، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ تشدد کو محض لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ قرار دے کر اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتے رہے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے صوبے کی مخدوش صورت حال کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی۔ طویل سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہی ہے اور اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس کے بعد بلوچستان میں گورنر راج اور سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کے استعفے کی صورت میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کا بالواسطہ طورپر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے بھی تعلق تھا۔ آئینی طورپر لاء اینڈ آرڈر کا قیام بلاشبہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے ہرصوبے کو پولیس فورس رکھنے کی اجازت ہے‘ لیکن جن دنوں مرکز اور صوبائی حکومتوں میں اختیارات کی تقسیم میں امن وامان کا مسئلہ صوبائی حکومتوں کے سپرد کیا گیا تھا، اس وقت لاء اینڈ آرڈر کے معنی محدود تھے اور اس کا تعلق زیادہ تر لوگوں کے درمیان تصادم کو روکنا یا شرپسند اور جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ موجودہ دور میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیچیدہ اور مفہوم میں وسیع ہوچکا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے پاس مطلوبہ وسائل اور صلاحیت (Capacity)نہیں ہے۔ اور اگر کہیں تھوڑا بہت سپیس (Space)موجود ہے تو قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر صوبوں میں مرکزی حکومت اور وفاقی لاء انفورسمنٹ ایجنسیز (Law Enforcement Agencies)کی مداخلت اس حدتک بڑھ چکی ہے کہ صوبائی حکومت عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال بلوچستان کی ہے‘ جہاں کھلے عام کہا گیا کہ ایف سی اپنے آپ کو صوبائی حکومت کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتی‘ اور وزیراعلیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ صوبے میں ایف سی نے متوازی حکومت قائم کررکھی تھی۔ اگر مسئلہ صرف امن وامان کا ہوتو صوبائی حکومتوں سے بازپرس ہوسکتی ہے۔ لیکن اس وقت ملک کے تمام حصوں میں جوصورت حال پائی جاتی ہے اسے محض امن وامان کا مسئلہ قرار دے کر اور صوبائی حکومتوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر، دامن نہیں چھڑایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک منظم طریقے اور مخصوص ایجنڈے کے تحت مختلف جرائم مثلاً اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، بنک ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور مرتکب افراد کا تعلق نہ تو کسی ایک صوبے سے ہے اور نہ کسی ایک شہر سے ہے بلکہ یہ وارداتیں ٹرانس نیشنل کرائمز کے زمرے میں آتی ہیں جسے صرف ایک نام دیا جاسکتا ہے اور وہ ہے دہشت گردی۔ دہشت گردی ایک قومی مسئلہ ہی نہیں بلکہ عالمی چیلنج ہے جسے محض لاء اینڈ آرڈر کا ایشو قرار دے کر اس کے حل کی ذمہ داری اکیلے صوبوں کے کاندھوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ غالباََ اس حقیقت سے وفاقی حکام بھی آگاہ ہیں‘ اس لیے وہ صوبائی حکومتوں کو ان کی بنیادی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے مرکز کی طرف سے بھی ضروری امداد کی پیش کش کرتے ہیں۔ کراچی کے معاملے میں مرکزی حکومت نے متعدد بار صوبائی حکومت کو پیش کش کی کہ وہ شہر میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے ہرممکن تعاون اور امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ بلوچستان میں تو ساری کی ساری ذمہ داری وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے‘ لیکن اس کے باوجود مرکز اور صوبوں کے درمیان دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے جس قدر قریبی تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتی‘ بلکہ مرکز کی طرف سے جو بھی پیش کش کی جاتی ہے صوبے اسے اپنی اندرونی خودمختاری میں مداخلت کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تاریخی اور دوسری موجودہ دور میں مرکزی حکومتوں کی طرف سے ایک جامع، متفقہ اور طویل المیعاد کائونٹر ٹیررازم پالیسی وضع کرنے میں ناکامی۔ تاریخی لحاظ سے پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ابھی ملک کو وجود میں آئے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا ) میں ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کو برطرف کردیا گیا‘ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں ان کی کابینہ کو اکثریت حاصل تھی۔ 1954ء میں مشرقی بنگال میں جمہوری انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی جگتو فرنٹ کی حکومت کو صرف ایک سال کے بعد برطرف کردیا گیا۔ اسی دوران میں پنجاب اور سندھ میں بھی گورنر راج نافذ کیے گئے۔ ون یونٹ کو صوبوں کی رضامندی کے بغیر نافذ کردیا گیا۔ بلوچستان کو 1970ء تک صوبائی درجے سے محروم رکھا گیا۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں گزشتہ چھ دہائیوں میں سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے پانچ دفعہ فوجی آپریشن کیا گیا۔ ابھی قوم پرست حلقوں کے دعویٰ کے مطابق فوجی آپریشن جاری ہے اور سیاسی کارکنوں کو زبردستی غائب کرنے، ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ صرف بلوچستان کے معاملے میں ہی نہیں مرکز اور دیگر تینوں چھوٹے صوبوں میں تعاون کے فقدان کا سبب بھی وہ بداعتمادی ہے جو گزشتہ 60برس سے زیادہ عرصہ میں پاکستان کی مختلف مرکزی حکومتوں کے غیرآئینی اور غیر جمہوری اقدامات کے سبب پروان چڑھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کا سبب یہی بداعتمادی ہے۔ 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ کی طرف سے پاکستان کو اربوں ڈالر فراہم کیے۔ کوئی سابق حکمرانوں خصوصاً جنرل مشرف سے پوچھے کہ اس میں سے کتنی رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبوں کی کپیسٹی بلڈنگ (Capacity building)پر خرچ کی گئی ؟ امن وامان کے قیام اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کے لیے صوبوں کے پاس صرف پولیس ہے۔ لیکن یہ پولیس نہ تو تعداد کے اعتبار سے کافی ہے‘ نہ ان کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں‘ نہ ان کے لیے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ تمام صوبوں میں پولیس کی تنخواہیں اور مراعات یکساں نہیں۔ ان حالات کی وجہ سے پولیس میں بددلی پائی جاتی ہے اس کی مثالیں حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود تمام صوبوں کی پولیس اور ان کے افسران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان تک کی قربانی دینے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ناکوں پر مامور اور چیک پوسٹوں کا انتظام سنبھالنے والے ہماری پولیس کے جوان دہشت گردوں کی کارروائیوں اور خودکش حملوں کا خاص طورپر نشانہ بن رہے ہیں‘ لیکن ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے ضروری سازوسامان نہیں‘ حتی کہ انہیں بلٹ پروف جیکٹیں بھی مطلوبہ تعداد میں فراہم نہیں کی گئیں‘ حالانکہ اس مقصد کے لیے پاکستان کو ایک خطیر رقم اہم بیرونی ذرائع سے بھی مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کی نقل وحرکت اور باہمی رابطوں کی مانیٹرنگ کے لیے جوجدید ترین سامان (Gadgets)وفاقی ایجنسیوں کے پاس ہے، وہ صوبائی پولیس تو درکنار پوری سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کے پاس بھی نہیں۔ ان حالات میں امن وامان کی صورت حال‘ جسے دراصل دہشت گردی نے پیچیدہ اور ہمہ جہتی بنادیا ہے‘ کو کنٹرول کرنے کے لئے کلیتاً صوبائی حکومتوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا‘ کیوںکہ ان کے پاس نہ تو مطلوبہ وسائل ہیں اور نہ ضروری صلاحیت، مرکزی حکومت کو سب سے پہلے یہ خامی دور کرنے میں صوبائی حکومتوں کی مناسب امداد اور رہنمائی کرنی چاہیے پھر ان کو اعتماد میں لے کر ایک جامع، مؤثر اور متفقہ حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔