پارلیمانی نظام حکومت میں سربراہ مملکت کا عہدہ خواہ وہ صدر کا ہو، بادشاہ کا ہو یا ملکہ کا، پارٹی سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات بھی رسمی اور برائے نام ہوتے ہیں۔ مثلاً تمام اہم فیصلے اور تقرریاں صدر کے نام پر کی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں اور اس کی سفارش پر صدر اپنی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سربراہ مملکت یا صدر کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ صدر پاکستان اور بھارت دونوں کی صورت میں وفاق اور ملک کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے۔ صدر کو اس لحاظ سے بھی پارلیمنٹ کا حصہ سمجھا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل اس وقت تک ملکی قانون کی صورت اختیار نہیں کرسکتا جب تک صدر اس پر اپنے دستخط نہ کردے۔ پاکستان اور بھارت میں صدر کا کردار، برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ کے مقابلے میں اور بھی نمایاں اور اہم ہوتا ہے کیوں کہ برطانیہ کے برعکس پاکستان اور بھارت دونوں وفاقی ریاستیں ہیں۔ وفاق اور اس کے اجزا یعنی صوبوں یا ریاستوں کے مابین اختلافات دور کرنے کے لیے جہاں دیگر ادارے مثلاً مشترکہ مفادات کی کونسل، سپریم کورٹ اور بین الصوبائی رابطہ کمیٹی قائم ہیں وہاں صدر کے لیے بھی اہم کردار ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے جب بھی نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے، تو تمام حلقوں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ صدر تمام سیاسی پارٹیوں کا متفقہ امیدوار ہو اور اس کا انتخاب غیر متنازعہ ہو لیکن پاکستان ہو یا بھارت جب بھی صدر کا انتخاب ہوتا ہے، نہ صرف حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان بلکہ خود حکمران پارٹی یا حکمران اتحاد میں شامل مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور صدر‘ جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ کسی پارٹی کا نمائندہ نہیں ہوتا‘ پارٹی پالیٹکس کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثلاً بھارت کے موجودہ صدر پرناب مکھرجی کے انتخاب کے موقع پر نہ صرف کانگرس اور بی جے پی میں سخت لے دے ہوئی بلکہ کانگرس کی سربراہی میں حکومت کرنے والا اتحاد یونائٹیڈ پروگریسو الائنس (UPA) بھی انتشار کا شکار ہوگیا اور ممتا بینر جی نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ ان کا الزام تھا کہ پرناب مکھر جی کو مغربی بنگال میں ممتابینر جی کی پارٹی ترینا مول کانگرس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے صدر منتخب کیا جارہا ہے کیونکہ پرناب مکھر جی پرانے بنگالی کانگرسی ہیں۔ بی جے پی کا استدلال تھا کہ کانگرس اپنا صدر لا کر آئندہ یعنی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتی ہے، حتیٰ کہ کانگریس کی دو حلیف جماعتیں مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی (BSP) اور ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی (SP) نے بھی ابتدا میں کانگرس کے چوائس کو رد کرکے ایک غیر جانبدار اور نان پارٹی امیدوار کو صدر بنانے کے حق میں فیصلہ کیا تھا لیکن چونکہ یو پی اے کو لوک سبھا اور سٹیٹ اسمبلیوں کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی‘ اس لیے پرناب مکھرجی بھارت کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ کچھ ایسا ہی سیاسی منظر پاکستان کے صدارتی انتخاب کے موقع پر‘ جس کا انعقاد کل ہونے جارہا ہے‘ ظہور پذیر ہوا ہے۔ اپوزیشن پارٹی یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کی تجویز تھی کہ صدارت کے لیے متفقہ امیدوار لایا جائے اور اس سلسلے میں ان کی طرف سے سینیٹر رضا ربانی کا نام لیا گیا جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک غیر متنازعہ اور سب کے لیے قابل قبول شخصیت ہیں لیکن حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جناب ممنون حسین کو اپنا امیدوار نامزد کیا جو پرانے مسلم لیگی ہیں اور ان کا تعلق سندھ سے ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے خیال میں مسلم لیگ ن نے یہ فیصلہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کیلئے کیا ہے۔ اس لیے صدارتی انتخاب پہلے دن سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کا شکار ہوگیا؛ حالانکہ پانچ سال قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اعتماد کا ووٹ دینے والوں میں مسلم لیگ ن کے اراکین قومی اسمبلی بھی شامل تھے۔ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ پانچ سال گزرنے کے بعد ہماری سیاسی پارٹیوں میں مفاہمت اور تعاون بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے بلکہ صورتحال سیاسی محاذ آرائی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اپوزیشن پارٹی یعنی پاکستان پیپلزپارٹی نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ کوئی اور چھوٹی بڑی پارٹی صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کرتی تو اس سے زیادہ فرق پڑنے کا احتمال نہ تھا لیکن پیپلزپارٹی عددی اعتبار سے قومی اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔اس کے علاوہ ملک کے دوسرے بڑے اور قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے مالا مال صوبے یعنی سندھ میں برسراقتدار ہے۔ اس لیے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ محض اس کی شکست خوردہ ذہنیت کا عکاس ہے یا اس کا قومی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ 11مئی کے انتخابی نتائج سے صوبوں خصوصاً پنجاب اور سندھ کے درمیان سیاسی سوچ کا اختلاف پہلے ہی ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اب ایک ایسی سیاسی پارٹی کا صدارتی انتخابی عمل سے باہر رہنا‘ جس کا مین سپورٹ بیس اگرچہ سندھ میں ہے لیکن اس کی جڑیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں نہ تو جمہوریت کیلئے اچھا ہے اور نہ ہی وفاق کے لیے سود مند ہے۔ اس کے ساتھ صدارتی انتخاب سے پہلے سیاسی پارٹیوں میں جس نوع کی سیاسی صف بندی دیکھنے میں آئی ہے، اس سے بھی ملکی سیاست پر آئندہ ہونے والے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے والوں میں مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں جبکہ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ قومی سیاست کی نئی صف بندیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت‘ جسے بعض لوگ اتحاد کا نام دے رہے ہیں‘ ایک اہم ہی نہیں بلکہ انتہائی دلچسپ واقعہ ہے کیونکہ کل تک یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر سخت وار کر رہی تھیں۔ آج نہ صرف حلیف ہیں بلکہ الطاف حسین نے نوازشریف کو بھائی کہہ کر اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد بھی یہ دونوں پارٹیاں اتحادی بن کر ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاست میں نہ تو مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ دشمن اور کل کے حریف آج کے حلیف بن سکتے ہیں لیکن اہم سیاسی فیصلے کرنے والوں کو ان فیصلوں کے نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بیشتر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہفتے کے روز مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والی مفاہمت کا مقصد صرف صدارتی انتخاب میں لیگی امیدوار کے حق میں ایم کیو ایم کے ووٹ حاصل کرنا نہیں بلکہ یہ اقدام مسلم لیگ ن کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت مرکزی حکومت کراچی‘ جو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ میں امن و امان کے قیام اور جرائم کے خاتمہ کے لیے ایک موثر اور براہ راست کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ ممنون حسین‘ جن کا تعلق کراچی کی تاجر برادری سے ہے اور جو پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک سینئر عہدیدار رہ چکے ہیں، کا چنائو بطور صدارتی امیدوار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے سابق ریکارڈ کے مطابق کراچی میں امن قائم نہیں کرسکتی لیکن اگر مقصد کراچی میں قیام امن ہے تو اس کے لیے ایم کیو ایم کو ساتھی بنانا حیرانگی کا باعث ہے کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایم کیو ایم نہ صرف وفاقی حکومت میں پیپلزپارٹی کی اتحادی پارٹی تھی بلکہ وہ سندھ حکومت کا بھی حصہ تھی اور کراچی کی صورت کی ذمہ داری اس پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اقدام سندھ میں پیپلزپارٹی کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقے بھی انہی خدشات کا اظہار کرکے مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان نئے سمجھوتے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن سندھ میں پیپلز پارٹی کو الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اس فیصلے سے اس نے سندھ کے قوم پرست حلقوں کو سخت ناراض کردیا ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں جن میں پیر صاحب پگاڑا کی فنکشنل لیگ بھی شامل تھی، پیپلزپارٹی سے دور ہو کر مسلم لیگ ن کے قریب آرہی تھیں، کیونکہ اول الذکر سندھی عوام کی خواہشات اور جذبات کے برعکس ایم کیو ایم کے ہر جائز اور ناجائز مطالبے کو تسلیم کرتی جارہی تھی۔ اب مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر سندھ کے قوم پرست حلقوں میں جو حمایت اور خیر سگالی حاصل کی تھی، بہت سے حلقوں کے مطابق اسے گنوا دیا گیا ہے۔ انتخاب کوئی بھی ہو‘ اختلاف‘ مقابلے یا تنازع سے خالی نہیں ہوتا لیکن پاکستان کے کل کے صدارتی انتخاب نے ملک میں ایسی نئی سیاسی صف بندیوں کو جنم دیا ہے جن کے آگے چل کر قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔