ایران کے نئے منتخب صدر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں مغربی دنیا خصوصاََ امریکہ سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے کا واحد طریقہ بات چیت ہے نہ کہ اقتصادی پابندیاں۔یادرہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کے جوہری پروگرام پر اختلافات کے باعث ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت اور عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت سخت دبائو میں ہے۔کرنسی کی قیمت خطر ناک حد تک نیچے گر چُکی ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی عام ہے اور لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔تاہم ان مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی صدر روحانی نے امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ایران پابندیوں سے مرعوب ہو کر اپنے قومی مفاد پر سودا بازی نہیں کرے گا۔امریکہ سے مخاطب ہو کر صدر روحانی نے کہا کہ ایران کے ساتھ اقتصادی پابندیوں کی زبان میں بات کرنے کی بجائے اگر برادری کی سطح پر باہمی احترام اور غیر معاندانہ رویہ اپنا کر بات کی جائے تو ایران اور امریکہ کے درمیان کھویا ہوا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے صدر روحانی کے اس مصالحانہ لہجے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر صدر روحانی بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں توامریکہ اس کیلئے تیار ہے۔امریکہ کا اشارہ ایران کے جوہری پروگرام کی طرف تھا جس کے بارے میں امریکہ اور مغربی دنیا کو شک ہے کہ اس کی آڑ میںایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی (IAEA)ایجنسی اور PS+1(امریکہ،برطانیہ،فرانس،چین،روس اور جرمنی)کے ایران کے ساتھ بات چیت کے متعدد ادوار کے باوجود ،مغربی دنیا کے خدشات دور نہیں ہو سکے۔اس لیے ایران کے خلاف امریکہ اور اْس کے اتحادی ملکوں نے اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔اب ایران کے نئے صدر نے پیش کش کی ہے کہ اگر ان اقتصادی پابندیوں کو نرم کر دیا جائے تو ایران اپنے ایٹمی پروگرام پر پھر سے بات چیت کرنے کیلئے تیا ر ہو جائے گا۔ایرانی صدر نے اپنی تقریر میں زور دے کر کہا کہ وہ ایران اور عالمی برادری کے درمیان کشیدگی کم کر کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز چاہتے ہیں۔ اْن کا مقصد ایران کو ایک دفعہ پھر عالمی برادری کا ایک فعال اور سرگرم رْکن بنانا ہے۔ ایران کے نئے صدر نے اپنے ملک اور عالمی برادری کے درمیان اعتماد کے رشتوں کو بحال کرنے کیلئے اپنی جس خواہش کا اظہار کیا ہے۔اْس کی کامیابی کا دارومدار ایران اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمہ پر ہے۔یہ محاذ آرائی فی الوقت ایران کے جوہری پروگرام پر امریکیوں کے اعتراضات کی وجہ سے ہے،لیکن حقیقت میں ایران۔امریکہ اختلافات بڑے گہرے ہیں۔اگر نئے ایرانی صدر کی پیش کش کا مثبت جواب مل بھی جائے اور ایران کے ساتھ (IAEA)یا یورپی یونین کے ایٹمی مذاکرات کا آغاز بھی ہو جائے تو ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے فوری خاتمے کا کوئی امکان نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران کی اسلامی حکومت کوخلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھتا ہے۔اس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے،امریکہ ایران پر عراق، شام،لبنان،فلسطین اور بحرین میں شیعہ عسکریت پسندوں کی حمایت کا الزام عائد کرتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرے اسلامی بشمول عرب ملکوں کے برعکس ایران نے اسرائیل کے بارے میں جوسخت رویہ اپنا رکھا ہے،امریکہ اْسے بھی اپنی اور اپنے اتحادی ملکوں کی سیکورٹی کیلئے خطرے کا باعث سمجھتا ہے۔لیکن تصادم کی جڑیں اور بھی گہری ہیں۔یہ دراصل سامراجی (Imperial) مفادات کی جنگ ہے۔ تاریخِ عالم میں بہت سی سلطنتیں(Empires) گزری ہیں۔ جیسے ایرانی، یونانی، رومن، عرب، عثمانیہ اور برطانوی ایمپائرز امریکہ جدید دنیا کی امپیئریل پاو ر ’’سامراجی طاقت‘‘ ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں کو اپنے حلقہ ہائے اثر میں بانٹ رکھا ہے۔مشرقِ وسطیٰ،خلیج فارس اور بحرِہند کا علاقہ جغرافیائی محلِ وقوع،تیل کی دولت اور تجارتی شاہراہوں کی وجہ سے امریکہ کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایران اس وقت ایک محدود رقبے پر مشتمل محدود انسانی اور قدرتی وسائل کے ساتھ ایک چھوٹا ملک ہے۔لیکن ماضی میں جتنی سلطنتیں ہو گزری ہیں، قدیم ایرانی سلطنت ان میں سب سے بڑی تھی اور اس کی سرحدیں ایک طرف دریائے سندھ سے پار(موجودہ پاکستان)اور افغانستان سے آگے وسطی ایشیاء،اور دوسری طرف پورے مشرقِ وسطیٰ، ترکی اور بلقان کے علاوہ مصر اور افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ان تمام علاقوں میں اب آزاد اور خود مختار ریاستیں قائم ہیں اور ان کے خلاف ایران کے کوئی سامراجی عزائم نہیں ہیں۔لیکن زبان،کلچر اور شیعہ مسلک کی صورت میں ان علاقوں کا ایران کے ساتھ تعلق قائم ہے۔ان علاقوں میں اگر کوئی طاقت باہر سے آکر اپنے مفادات کی خاطر گڑ بڑ کرتی ہے،تو ایران کو اس پر ضرور تشویش ہو گی۔اس لیے مشرقِ وسطیٰ میں جب تک امریکہ ایک مْخل طاقت(Intruder)کی حیثیت سے موجود رہے گا، ایران کے ساتھ چپقلش جاری رہے گی۔جب1979میں امریکہ کے کٹر اتحادی رضا شاہ پہلوی کی حکومت ختم ہوئی اور ایران کی موجودہ اسلامی حکومت قائم ہوئی تو امریکہ نے جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے ایک طرف اپنی جنگی قوت میں اضافہ کیا اور دوسرے طرف سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو ڈرانے کیلئے ایرانی خطرے کا ہَوا کھڑا کیا۔چھ خلیجی ملکوں پر مشتمل تنظیم خلیجی تعاون کونسل(G.C.C) کی تشکیل اس سلسلے کی کڑی تھی۔ حالانکہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے مذہب یا مسلک کو کبھی بھی اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد نہیں بنایا اور نہ ہی اْس نے خطے میں کسی ملک یا علاقہ پر اپنا حق جتلایا۔اس کے برعکس امریکہ‘ شمالی افریقہ سے خلیج فارس اور بحرِ عرب تک کے علاقے کو اپنے حلقہ اثر میں شامل سمجھتا ہے۔ اس علاقے میں کوئی بھی ملک جو اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہویا اپنے قومی مفادات کو بیرونی آقائوں کے تابع کرنے پر آمادہ نہ ہو، امریکہ کیلئے ناقابل قبول ہے۔یہ سرد جنگ کے دور میں اپنائی جانے والی جان فاسٹر ڈلس کی خارجہ پالیسی ہے اور اس پالیسی کے تحت9/11کے بعد جارج بْش نے کہا تھا کہ جو ملک امریکہ کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا،اْسے دشمن تصور کیا جائے گا۔(Either you are with us or against us)جارج بْش نے شام اور شمالی کوریا کے ساتھ ایران کو بھی اپنی نفرت اور ہتک آمیز پالیسی کا نشانہ بنایا تھا۔اور ان تینوں ملکوں کو ’’بدی کا محور‘‘ (Axis of Evil)کا نام دیا تھا۔ ایران کے بارے میں صدر اوباما کے دور میں امریکی پالیسی میں اس قدر لچک ضرور آئی ہے کہ صدر بْش کے برعکس اْس نے ایران کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی اسرائیلی تجویز کی حمایت نہیں کی اور ابھی تک اْس نے ایران کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھْلے رکھے ہیں۔تاہم اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کے بے گناہ شہریوں کو جس انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے،وہ سابق صدربْش کی معاندانہ پالیسی ہی کا تسلسل ہے۔اگر امریکہ ایران کے ساتھ اپنے مذاکرات کو بارآور دیکھنا چاہتا ہے تو اْسے سامراجی سوچ ترک کر کے ایران کی قومی حیثیت اور خطے میں اْس کے مقام کو تسلیم کرنا ہو گا،جو کہ جغرافیائی،تاریخی اور تہذیبی طور پر ایران کا حق ہے۔صدر روحانی نے اپنی افتتاحی تقریرمیں اس طرف اشارہ کر کے امریکہ اور مغربی دنیا کو موقعہ دیا ہے کہ وہ جارحانہ روش اور دبائو کے ہتھکنڈے ترک کر کے ایران کے خلاف پابندیوں کی بجائے برابری اور باہمی مفادات پر مبنی مذاکرات کریں۔اس سے ایران اور امریکہ کے درمیان سرد مہری اور کشیدگی ہی کم نہ ہو گی بلکہ مسلم بلاک کے ساتھ امریکہ کے بگڑے ہوئے تعلقات میں بھی گرم جوشی پیدا ہو سکتی ہے۔