پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خالق سینیٹر رضا ربانی نے ایک دفعہ پھر مسلم لیگ(ن)کی موجودہ حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تین سال قبل اتفاق رائے سے منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نہ صرف عمل کرنے میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے،بلکہ اسے رول بیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سلسلے میں اْنہوں نے وفاقی وزیر برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل جناب شاہد خاقان عباسی کے اس بیان پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم کا از سرِنو جائزہ لے کر آئین کے آرٹیکل158میں مزید ترمیم کرنا چاہتی ہے جس کے تحت صوبوں کے درمیان قدرتی گیس کی تقسیم کا ایک فارمولا طے کیا گیا ہے۔اس فارمولا کے تحت ملک کے جس صوبے میں گیس پیدا ہو گی،سب سے پہلے اْس صوبے کی گیس کی ضروریات پوری کی جائیں گی اور اْس کے بعد دوسرے صوبوں کو اْس میں سے حصہ ملے گا۔جناب شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گیس کے بٹوارے کا یہ فارمولا وسیع تر قومی مفاد اور ملک کی مجموعی ترقی کے تقاضو ں سے مطابقت نہیںرکھتا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے اْنہوں نے مثال دی ہے کہ اگر ایک فیکٹری پنجاب میں لگائی جاتی ہے تو اْس کیلئے اس فارمولا کے تحت گیس حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس صورت حال میں قوم کو مجموعی طور پر نقصان پہنچے گا،کیوں کہ جن صنعتوں کی پیداوار سے پوری قوم مستفید ہو سکتی ہے وہ محض صوبائی حصے کے محدود ہونے کی وجہ سے گیس کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں کر سکیں گی۔اس بیان پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جناب رضا ربانی نے اسے وَن یونٹ سوچ کی عکاسی قرار دیا ہے اور وفاقی وزیر کو یاد لایا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم جس میں گیس کی تقسیم کا یہ فارمولا شامل کیا گیا ہے ،قومی اتفاقِ رائے سے منظور کی گئی تھی۔اْنہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر موجودہ حکومت نے قومی اتفاقِ رائے کے برعکس کوئی اقدام کیا تو صوبے خصوصاََ سندھ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا اس کے خلاف سخت ردِعمل کا اظہار کریں گے اور وہ کسی صورت بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کسی تبدیلی کو برداشت نہیں کریں گے۔جناب رضا ربانی کے موقف کی حمایت میں عوامی نیشنل پارٹی (ANP)کے سربراہ جناب اسفند یارولی خاں نے بھی ایک سخت بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ اے این پی صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی اور اگر ایسا کیا گیا تو اْن کی پارٹی ایسے اقدام کے خلاف پْر زور احتجاجی تحریک چلائے گی۔خود رضا ربانی صاحب نے اعلان کیا ہے کہ عید کے بعد اْن کی پارٹی اس مسئلے پر دیگر خاص طور پر چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کرے گی تاکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی حکومتی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کے بیان اور اْس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ردِعمل آنے کے بعد ایک دفعہ پھر اْسی طویل اور تلخ بحث کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو مرکز اور صوبوں کے تعلقات کے حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ کا ابتدا ہی سے ایک اہم حصہ رہی ہے اور بار بارکوششوں کے باوجود ابھی تک اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم جسے گذشتہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے ایک برس کی محنت کے بعد منظور کیا تھا،ہماری آئینی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ اس کے تحت1973ء کے آئین کے تقریباََ33فیصد حصے میں اتفاقِ رائے سے تبدیلی کی گئی ،اس لیے اسے1973ء کے آئین کی تشکیلِ کے بعد سب سے اہم آئینی اقدام قرار دیا جاتا ہے۔اس ترمیم کو پیش اورمنظور کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے ذریعے1973ء کے آئین میںضیاء الحق اورمشرف کے دور میں کی گئی آئینی تبدیلیوں کو دور کر کے1973ء کے آئین کو اْس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا ہے۔اس ترمیم کے تحت پارلیمنٹ یعنی وزیراعظم کے جن اختیارات کو پاکستان کے آخری دو فوجی آمروں نے سربراہ مملکت یعنی صدر کے ہاتھ میں دے دیاتھا اْن کو واپس پارلیمنٹ یعنی وزیراعظم کے حوالے کر دیا گیا ہے ،اس کے علاوہ آئین میںکنکرنٹ لسٹ کو ختم کر کے صوبائی خود مختاری کے حجم کو وسیع کر دیا گیا ہے۔اس پیکج میں صوبوں کے قدرتی وسائل جن میں گیس اور تیل بھی شامل ہے، پر اْن کے50فیصد حق کو تسلیم کرتے ہوئے اْن کی اپنی ضروریات کو دیگر صوبوں کی ضروریات پر ترجیح دی گئی ہے۔دلچسپ بات ہے کہ جس پارلیمانی کمیٹی نے یہ سفارشات منظور کر کے انہیں آئین کا حصہ بنایا تھا،اْس میں جناب اسحاق ڈار اور جناب مہتاب عباسی مسلم لیگ (ن)کے نمائندوں کی حیثیت سے شامل تھے۔ اس کے باوجود اگر مسلم لیگ (ن)کی حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس کی ایک ایسی شق کو حذف کرنا چاہتی ہے جس کے تحت صوبوں کے دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کیا گیا ہے،تو اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے میں سنٹرسٹ(Centrist)سوچ ابھی تک نہ صرف موجود ہے بلکہ قومی اتفاق رائے سے طے شدہ وفاق اورصوبوں کے تعلقات کو اس کے تابع لایا جارہا ہے۔ماضی میںاس سوچ نے قومی اتحاد اور یک جہتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے مضرت رساں نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً1940ء کے بعد مسلم اکثریتی صوبوں میں پاکستان کی زبردست عوامی حمایت کا بنیادی سبب آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ امیج تھا،جس کے تحت کانگرس کے مقابلے میں وہ زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے حق میں تھی،لیکن قیام پاکستان کے بعد یہی مسلم لیگ مضبوط مرکز کی حامی اور صوبائی خود مختاری کی سب سے بڑی مخالف بن گئی۔اس رویے نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان بدگمانی پیدا کی جس کا آخر کار نتیجہ 1971ء میں اس کی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ 1956ء کے آئین میں صوبائی خود مختاری کی حدود پر تمام سیاسی پارٹیوں بشمول عوامی لیگ کا اتفاق تھا،لیکن ایوب خاں نے اس آئین کو ختم کر کے 1962ء کا آئین نافذ کیا جس کے تحت بقول سابق چیف جسٹس محمد منیر،پاکستان عملی طور پر ایک وحدانی ریاست بن گیا۔شیخ مجیب الرحمن کے6نکات اسی سوچ کا نتیجہ تھے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل کے موقع پر جناب ذوالفقار علی بھٹونے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا،کہ اس آئین کے تحت پاکستان کا سب سے دیرینہ اور سب سے اہم یعنی صوبائی خود مختاری کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل کر دیا گیا ہے ،لیکن جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے پاکستانی ریاست کا وفاقی کردار ختم کر دیا۔بلوچستان اور سندھ میں قدرتی وسائل یعنی معدنیات، گیس اور تیل پر مکمل صوبائی ملکیت کے مطالبات ان دو آخری مارشل لاء کی پیداوار ہیں۔اٹھارہویں آئینی ترمیم سے ایک درمیانہ راستہ نکالا گیا ہے جس پر چھوٹے صوبے بھی راضی ہیں۔اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کو جسے منظور ہوئے ابھی تین برس ہی گزرے ہیں اور جسے پوری طرح ابھی تک نافذ بھی نہیں کیا گیاتبدیل کرنے کی کوشش کی گئی،تو پْرانے مسائل پھر سے سر اْٹھائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ صوبے ان وسائل پر مکمل ملکیت کے مطالبات پیش کر دیں۔