پاکستان کے چاروں صوبوں میں آئندہ ایک آدھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ان انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں صوبائی حکومتیں ابتدائی اقدامات کرنے میں مصروف ہیں ،جن میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کی تشکیل بھی شامل ہے ۔لیکن ایک دلچسپ بحث ابھی سے شروع ہو گئی ہے کہ یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو ں یا غیر جماعتی۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے ان انتخابات کو جماعتی بنیادوں پر منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ(نواز)نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر منعقد ہوں گے ۔صوبہ بلوچستان میں ابھی اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن غالب امکان یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر کروائے جائیں گے کیوںکہ صوبائی حکومت میں مسلم لیگ(ن)بطور ایک اہم اور با اثر اتحادی شامل ہے اور بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں اتنی طاقتور نہیں کہ وہ بلدیاتی انتخابات کو جماعتی بنیادوں پر کرنے پر اصرار کریں۔ اس بحث کا ایک نیا اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ پنجاب کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گی۔ حالانکہ لوکل گورنمنٹ اور اس کے مختلف اداروں کے انتخابات ایک صوبائی مسئلہ ہے اور ہر صوبے کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق اس بات کا فیصلہ کرے کہ صوبے میں کس قسم کا بلدیاتی نظام ہو اور اس کے تحت انتخابات جماعتی ہوں یا غیر جماعتی۔ تاہم اس بحث کا ایک خاص پس منظر ہے جسے پورے سیاق و سباق میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ سچ ہے کہ موجودہ شکل میں بلدیاتی نظام اور اس کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی روایت ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملی تھی۔یہ بھی درست ہے کہ انگریزوں کی جانب سے اس نظام کو قومی سیاست کے دھارے سے الگ تھلگ رکھنے کا بنیادی مقصد قومی سطح پر سیاسی قیادت کو اْبھرنے سے روکنا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام فوجی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کے عمل سے سیاسی جماعتوں کو باہر رکھا اور اس سے اْن کا بھی یہی مقصد تھا کہ قومی سطح پر سیاسی قیادت کو اْبھرنے کے امکانات کو ختم کیا جائے۔لیکن اس کے باوجود جمہوری سیاسی دور میں بھی اگر بلدیاتی انتخابات غیر سیاسی یعنی غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرنے کی روایت پر عمل ہوتا رہا ہے تو اْس کی چند ٹھوس وجوہات ہیںجن کا اس بحث میں ذکر کرنا ضروری ہے ،اس طرح اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ بعض سیاسی جماعتیں ان انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرنے پر کیوں اصرار کرتی ہیں؟ پاکستان میں براہ راست اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر تین سطح پر انتخابات ہوتے ہیں …قومی سطح پر یعنی قومی اسمبلی، صوبائی سطح پر یعنی صوبائی اسمبلیوں کیلئے اور مقامی سطح پر یعنی لوکل گورنمنٹ اداروں کیلئے ۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ان تینوں میں سے ہر سطح پر ووٹر کے سامنے اپناووٹ ڈالتے وقت مختلف ترجیحات ہوتی ہیں ۔اس لیے ضروری نہیں کہ ایک سیاسی پارٹی جس نے دوسری سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں ایک صوبے سے قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کی ہوں،صوبائی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کر سکے۔اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ یونین کونسل کے انتخابات میں ووٹرز ایک ایسے امیدوار کے حق میں فیصلہ دیں جس کا تعلق اْسی حلقے سے منتخب ایم این اے اور ایم پی اے کی پارٹی سے نہ ہو۔مقامی حکومت خود اختیاری کا بنیادی مقصدمقامی مسائل کے حل کیلئے مقامی لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے اور اس کیلئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ یہ انتخابات مقامی مسائل کی بنیاد پر ہوں بلکہ بہتر ہے کہ منتخب ممبران بھی مقامی ہوںکیوں کہ وہی ان مسائل کو احسن طریقے سے حل کروا سکتے ہیں۔ اگر یہ انتخابات سیاسی یا جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں تو مقامی مسائل سے جو کہ لوکل گورنمنٹ کا اصل دائرہ ہے، فوکس ہٹ جائے گااور ان کی جگہ ایسے سیاسی یا جماعتی مسائل لے لیں گے جن کا نہ صرف مقامی لوگوں سے بلکہ علاقے سے بھی دور کا تعلق نہ ہو گا۔اس کے علاوہ اس بات کا بھی خدشہ برقرار رہتا ہے کہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے سیاسی پارٹیوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر شدیداختلافات پیدا ہوں گے۔ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا نظام پہلے ہی کمزور بنیادوں پر قائم ہے۔پارلیمانی انتخابات کے بعد اگر لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے موقعہ پر سیاسی پارٹیاں خلفشار کا شکار ہوتی ہیں تو اس سے سیاسی پارٹیاں اور بھی کمزور اور غیر مؤثر ہو سکتی ہیں۔لیکن ’’غیر جماعتی انتخابات ‘‘سے چونکہ برطانوی سامراج اور فوجی آمریت کے خود غرضانہ اور تنگ نظر مفادات وابستہ رہے ہیں،اس لیے بیشتر سیاسی پارٹیاں انہیں سیاسی اور جماعتی بنیادوں پر کروانے کے حق میں ہیں۔ویسے بھی لوکل گورنمنٹ اتنی بڑی ڈومین(Domain)ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو اس سے باہر رکھنا جمہوری تقاضوں کے منافی ہے، اس وجہ سے سیاسی اور جماعتی بنیادوں پر لوکل گورنمنٹ انتخابات کو نہ صرف چارٹر آف ڈیموکریسی(2006ء) میں شامل کیا گیا تھا بلکہ گذشتہ پارلیمانی انتخابات کے موقعہ پر بھی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا تھا۔ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے حق میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ غیر جماعتی انتخابات سے مقامی سطح پر برادری ازم پروان چڑھتا ہے جو آگے چل کر پارلیمانی انتخابات پر منفی اثرات چھوڑ سکتا ہے۔برادری ازم اور قبائلی مفادات کی ہمارے انتخابی سسٹم پر پہلے ہی گہری چھاپ ہے اور اگر بلدیاتی انتخابات تواتر کے ساتھ غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے گئے تو اس سے یہ اثرات اور بھی تقویت پکڑیں گے۔ ان مضبوط دلائل کے باوجود ہمارے ہاں اکثریتی رائے عامہ غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو سیاسی بنیاد پر یا براہ راست سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے منتخب ممبران پر اعتماد نہیںاور اْن کو خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ سیاسی مصلحت یا پارٹی مفاد کی خاطر مقامی مسائل کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔اگرچہ رسمی طور پر نہ سہی لیکن عملی طور پر سیاسی پارٹیاںبلدیاتی انتخابات سے لاتعلق نہیں رہتیں،اور اپنے اپنے امیدواروں کا نہ صرف چنائو کرتی ہیں بلکہ اْن کے حق میں پر زور مہم بھی چلاتی ہیں۔اس لیے یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز عملی طور پر پہلے ہی مستعمل ہے،اْسے کیوں نہ رسمی طور پر بھی اپنالیا جائے۔لیکن اگر ایک عرصے سے قائم روایت سے ہٹ کر قدم اْٹھانا شاید مشکل نظر آرہا ہوتواس کا ایک حل یہ ہے کہ ہر صوبے کو اْس کی صوابدید کے مطابق بلدیاتی انتخابات جماعتی یا غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرنے کا موقعہ دیا جائے اور اس کے بعد جائزہ لیا جائے کہ کون سا طریقہ جمہوریت کے تقاضوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے زاویے سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔