ابھی سرکاری نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن22اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج تمام سیاسی پارٹیوں کی آنکھیںکھولنے کیلئے کافی ہیں۔ ریکارڈ ہائی (High) ٹرن آئوٹ والے 11مئی کے عام انتخابات کے تقریباً 100دن بعد ریکارڈ لو(Low)ٹرن آئوٹ کے ساتھ ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج پر کئی پہلوئوں سے تبصرہ کیا جائے گا‘ لیکن ان سے ایک پیغام صاف اور نمایاں نظر آتا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ 11مئی کے معرکے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے بالترتیب مرکز اور صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومتیں تشکیل دینے کے بعد عوام سے کیے گئے وعدوں کو جس طرح پسِ پشت ڈالا ہے، اُس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔اگرچہ ان ضمنی انتخابات سے مسلم لیگ (ن)اور تحریک انصاف کوعددی اعتبار سے زیادہ فرق نہیں پڑا اور دونوں پارٹیوں کی حکومتیں بالترتیب مرکز اور خیبر پختون خوا میں اپنی اپنی جگہ محفوظ ہیں؛ تاہم پنجاب‘ جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے‘ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں نے کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ جنوبی پنجاب یعنی ڈی جی خان میں دو ایسی صوبائی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جنہیں 11مئی کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے جیتا تھا۔ان میں سے ایک سیٹ ایسی ہے یعنی PP-247جسے وزیراعلیٰ شہاز شریف نے خالی کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ راجن پور کی اس صوبائی سیٹ پر ہار جیت کے فیصلے میں مقامی حالات اور قبائلی رقابتوں کا زیادہ دخل ہو ،لیکن لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال کافی دیر تک گھومتا رہے گا،کہ وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود شہباز شریف اپنی پارٹی کی ایک صوبائی نشست کو نہ بچا سکے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہNA-1(پشاور)اور میانوالی کے حلقہ NA-71کے نتائج سے پی ٹی آئی سے زیادہ عمران خان کو دھچکا لگا ہے۔ ان دونوں نشستوں سے عمران خان بھاری اکثریت سے جیتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے یہ نشستیں خالی کر دیں۔پی ٹی آئی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان نشستوں پر ان کی پارٹی کی شکست کا سبب پارٹی کا اندرونی خلفشار ہے‘ مثلاً پشاور کے انتخابی معرکہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار گل بادشاہ کو ان کی پارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی کی بھی حمایت حاصل تھی،عمران خان کی پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور امیدوار آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے تھے۔اسی طرح میانوالی میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو شکایت تھی کہ عمران خان نے نسبتاً اچھے اور مضبوط امیدواروں کو نظر انداز کر کے ایک کمزور امیدوار کو ٹکٹ دی۔اخبارات اور ٹی وی چینلز کی اطلاعات کے مطابق دونوں حلقوں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے انتخابی مہم کے دوران اس جوش‘ جذبے اور محنت کامظاہرہ نہیں کیا جس کا انہوں نے 11مئی کے انتخابات کے موقعہ پر کیا تھا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی ذاتی اپیل اور پارٹی کے کارکنوں پر اس کا کنٹرول ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے۔ 11مئی کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن)کے بعض رہنمابار بار کہتے سنے گئے کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ اسی طرح طالبان اور ان کے ساتھی انتہا پسندمذہبی سیاسی جماعتیں اپنی طرف سے خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی آخری رسومات ادا کر چکی تھیں۔ضمنی انتخابات سے صرف ایک دن قبل تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان نے ایک بیان میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کوطالبان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے بقول ان کے اے این پی کے حشرسے سبق سیکھنے کا مشورہ دیا تھا،جسے بقول ان کے پے درپے خود کش حملوں سے نہ صرف مفلوج کر دیا تھا بلکہ سیاست سے بھی باہر کر دیا تھا۔ لیکنNA-1پشاور کی سیٹ کو دوبارہ جیت کر غلام احمد بلور نے نہ صرف اے این پی کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ صوبائی سیاست کو ایک نیا موڑ مہیا کیا ہے‘ کیوں کہ کہنے کو تو یہ محض ایک نشست کا معاملہ ہے مگر اس کیSymbolic Valueبہت زیادہ ہے۔تبصرہ نگاروں کی اکثریت کا خیا ل ہے کہ پشاور کے معرکے میں شکست کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر نہ صرف اے این پی کی طرف سے بلکہ جمعیت علمائے اسلام(ف) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے دبائو میں اضافہ ہو جائے گا‘ کیوں کہ ان دونوں پارٹیوں نے22اگست کے ضمنی انتخابات میں پشاور کی نشست پر اے این پی کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح پنجاب میں مظفر گڑھ میں جاوید دستی کے مقابلے میں نور ربانی کھر اور اوکاڑہ سے خرم جہانگیر وٹو کی کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی مکمل طور پر بے دخل نہیں ہوئی اور اب بھی اس میں حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنے حق میں عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کا جب الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری اور حتمی اعلان کیا جائے گا تو صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی لیکن اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں،ان کے مطابق مجموعی طور پرسابق رجحانات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی‘ مثلاً پنجاب کے وہ حصے جنہیں مسلم لیگ (ن)کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، ان میں مسلم لیگ(ن)اپنی نشستیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔اسی طرح سندھ میں بھی ہمیں کم وبیش وہی رجحانات نظر آتے ہیں جو 11مئی کے انتخابات کے نتائج کی صورت میں ہمارے سامنے آئے تھے‘ مثلاً ایم کیو ایم نے اپنی نشستیں برقرار رکھی ہیں۔لیکن پی ٹی آئی نے کراچی میں ایک دفعہ پھر دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کا ثبوت دیاہے۔11مئی کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے کراچی میں تقریباً 5لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پیچھے چھوڑ کر دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔اندرونِ سندھ پی ٹی آئی نے تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔اس دفعہ پی ٹی آئی نے سندھ کی سات خالی نشستوں میں سے صرف دو قومی حلقوں کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔سندھ کے مخصوص سماجی اور سیاسی حالات کے باعث ابھی تک پی ٹی آئی کو پنجاب اور خیبر پختون خوا کی طرح سندھ میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی؛ تاہم پی ٹی آئی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک برقرار نہیںرہ سکتی‘ اور سندھ میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پی ٹی آئی کی قیادت قوم پرست سیاسی حلقوں سے رابطے میں ہے۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ پشاور کی نشست کو چھوڑ کر اے این پی اور جے یو آئی کے اتحادکے باوجود صوابی اور نوشہرہ کی نشستیں پی ٹی آئی نے جیت لیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام 11مئی کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ(ن)،تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو ابھی ان کے مقتدر مقامات سے نیچے گرانے کے حق میں نہیں؛ تاہم پشاور میں غلام احمد بلور کو جتواکر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دو نشستوں اور کراچی میں تحریک انصاف کو دوسرے نمبر پر لا کر،ایک ویک اَپ کال(Wake Up Call)دینا چاہتے ہیں کہ گورنس بہتر کیے بغیر ان کے مسلسل اقتدار میں رہنے کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔