پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بغیر کسی لگی پٹی کے کہہ دیا کہ ان کے دور ۂ پاکستان کا سب سے اہم مقصد افغان طالبان کو حکومتِ افغانستان کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کیلئے حکومتِ پاکستان کی رضامندی کا حصول ہے۔ کچھ اس قسم کا بیان انہوں نے دورہ پاکستان کے آغاز سے قبل کابل یونیورسٹی میں بھی دیا تھا۔اس بیان میں صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں افغان امن مذاکرات آئٹم نمبرایک ہوں گے۔اس سے مراد یہ ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف افغان طالبان کو اِن مذاکرات میں شمولیت پر آمادہ کرے بلکہ پاکستان کی جیلوں میں بند افغان طالبان کے سینئر رہنمائوں کورہا بھی کرے۔ خصوصاََ ملا عمر کے سابق نائب ملا عبدالغنی برادر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اعتدال پسند ہیںاور افغانستان میں گزشتہ 12برس سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے حق میں ہیں۔ گزشتہ جولائی میں وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز جب کابل گئے تھے تو افغان حکام کے ساتھ بات چیت میں بھی یہی مسئلہ سرِ فہرست رہا۔ دوسرے الفاظ میں نہ صرف صدر حامد کرزئی کے موجودہ دورہ کی کامیابی بلکہ مستقبل قریب میں بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ملا عمر کی رہنمائی میں لڑنے والے افغان طالبان کو کرزئی حکومت کے ساتھ کہاں تک مذاکرات پر آمادہ کر سکتا ہے۔اگرچہ غیر رسمی سطح پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان متعدد بار رابطہ قائم رہا ہے ،لیکن افغان طالبان نے رسمی طورپر کرزئی حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر کبھی بھی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا۔افغان طالبان کرزئی حکومت کو امریکہ کا پٹھو سمجھتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ وہ صرف امریکہ سے بات چیت کریں گے اور وہ بھی وَن پوائنٹ ایجنڈے پر یعنی افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلاء۔سابق صدر مشرف سے لیکر آج تک پاکستان کا بھی یہی موقف رہا ہے کہ امریکہ کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے۔حالانکہ پاکستان سرکاری طور پر صدر حامد کرزئی کی حکومت کو افغانستان کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتا ہے۔لیکن اِسے غیر موثر اور کمزور حکومت سمجھتا ہے۔پاکستان میں کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ایسی ہیں جو امریکہ۔طالبان براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جہاں تک افغان طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کا تعلق ہے اس سلسلے میں پاکستان کا جو موقف سامنے آیاہے، اس کے مطابق پاکستان یہ تو اعتراف کرتا ہے کہ اس کے افغان طالبان کے ساتھ رابطے ہیں لیکن اتنااثرورسوخ نہیں ہے جسے استعمال کرکے افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ صدر حامد کرزئی کے دورہ اور وزیراعظم نواز شریف سے اکیلے میں بات چیت کے باوجود حکومتِ پاکستان کی طرف سے افغان صدر کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔رہا پاکستان میں اسیر سینئر افغان رہنمائوں کا معاملہ،اس سلسلے میں بھی پاکستان کیلئے افغان حکومت کے تمام مطالبات تسلیم کرنے مشکل ہیں۔کیوں کہ اس میں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا بھی دخل ہے جس کا اس مسئلے پر ایک الگ موقف ہے۔ غالباََ یہی وجہ ہے کہ سرتاج عزیز بھی اپنے دورئہ افغانستان کے دوران افغان رہنمائوں کو کسی قسم کی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرواسکے۔ تاہم پاکستان پر امریکہ اور بین الاقوامی برادری کا دبائو بڑھ رہا ہے جس کے تحت پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ افغان امن مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دے۔اس کیلئے اسے نہ صرف اپنے ہاں قید طالبان کو رہا کرنے کیلئے کہا جارہا ہے، بلکہ اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ چونکہ افغان طالبان افغانستان میں اتحادی اور افغان فوجیوں پر حملے کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں،اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ طالبان کو امن مذاکرات بلکہ کرزئی حکومت کے ساتھ براہ راست گفت و شنید پر راضی کرے۔ افغانستان میں حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ پاکستان زیادہ دیر تک گومگو کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔اور اسے کوئی بھی دوٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔سال2014ء کے آخر تک امریکہ اور نیٹو کی بیشتر افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج اب فرنٹ لائن لڑائی میں حصہ نہیں لے رہیں۔بلکہ پورے افغانستان میں سکیورٹی اور طالبان کے حملوں کو روک تھام کی ذمہ داری اب افغان پولیس اور افغان نیشنل آرمی کے کندھوں پر ہے۔توقع کے برعکس افغان سکیورٹی فورسز بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔حالیہ دنوں میں انہوں نے طالبان کی طرف سے کئی حملوں،جن میں خود کش حملے بھی شامل تھے،امریکی افواج کی امداد کے بغیر ناکام بنائے ہیں۔ان میں کچھ عرصہ پیشتر جلال آباد میںبھارتی قونصل خانے پر طالبان کی طرف سے خود کش حملے کی ناکام کوشش تھی۔ امریکی ذرائع کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز جن کی تعداد تقریباََساڑھے تین لاکھ ہے،اب زیادہ اعتماد اور بہتر پروفیشنل کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں افغان طالبان کیلئے عوامی حمایت کم ہو رہی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ایک تو یہ کہ طالبان کے خودکش حملوں،سڑک کنارے نصب بموں کے پھٹنے اور دیگر حملوں میں افغانستان کے شہریوں کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی دوتہائی تعداد کی ہلاکت کا سبب طالبان کے خود کش اور نصب شدہ بم بلاسٹ ہیں۔اس کی وجہ سے جہاں افغان شہریوں میں امن اور جنگ بندی کے حق میں جذبات شدت پکڑ رہے ہیں،وہاں طالبان کو جنگ اور اس کے نتیجے میں بھاری جانی اور مالی نقصان کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے۔ دوسرے، افغان طالبان کو اب افغانی لوگ اور خصوصاََشہری آبادی ایک بیرونی طاقت کا آلۂ کار سمجھ رہے ہیں۔بیرونی طاقت سے ان کی مراد پاکستان ہے جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کی پشت پر سوار ہو کر افغانستان میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میںجب پاک افغا ن طورخم سرحد پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں میں تصادم ہواتھا اور ایک افغان فوجی مارا گیا تھا،افغانستان کے کئی شہروں میںپاکستان مخالف جلوس نکالے گئے تھے۔اس کے ساتھ ہی حکومت افغانستان کی طرف سے افغان طالبان پر بھی تنقید کی گئی تھی کہ وہ بیرونی خطرے کے خلاف مادرِ وطن کا دفاع کرنے کی بجائے،اپنے عوام کو گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ پروپیگنڈہ اتنا شدید تھا کہ افغان طالبان کو ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ہر قسم کی بیرونی جارحیت کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہیں ۔اور اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد ویسی صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات کم ہیں جیسی1975ء میں ویت نام میں پیدا ہوئے جب جنیوا معاہدے کے تحت امریکہ کی پانچ لاکھ سے زائد فوج کو ویت نام سے بھاگناپڑا تھا۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ افغان طالبان کی قوت اور اہمیت کم ہو گئی ہے اگر ایسا ہوتا تو امریکہ اور کرزئی حکومت ان سے مذاکرات کیلئے اتنے بے چین نہ ہوتے اور نہ ہی ا س کیلئے پاکستان پر کسی قسم کا دبائو ڈالا جاتا۔دراصل بارہ سال کی لڑائی کے بعد امریکہ نے یہ سبق سیکھا ہے کہ طاقت کے استعمال سے افغان طالبان کی سرکشی کوختم نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی انہیں افغانستان کے سیاسی نظام سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔لیکن ملا عمر کی قیادت میں لڑنے والے افغان طالبان2001ء سے پہلے افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت یعنی اسلامی اماراتِ افغانستان کو ہی افغانستان کی جائز اور نمائندہ حکومت سمجھتے ہیں۔دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے کھلنے اور پھر اچانک بند ہونے کے پسِ پردہ یہی عنصر کار فرما تھا۔اس لیے اگر افغان طالبان پاکستان کی طرف سے کچھ یقین دہانیوں کے پیشِ نظر کرزئی حکومت سے براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو بھی جائیں تو اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے گا؟ طالبان نہ تو افغانستان کی موجودہ حکومت کو مانتے ہیں اور نہ ملک کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔ فریقین کے موقف میں اتنا بُعد ہے کہ اسے کم کرنے میں لمبے عرصے تک مسلسل مذاکرات کی ضرورت ہے۔