امن و امان کے حوالے سے پاکستان کا جتنا گھمبیر مسئلہ کراچی کا ہے،اتنا شاید ہی کوئی اور ہو۔گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کا سب سے بڑا شہر کاروباری سرگرمیوں اور صنعتوں کا مرکز، گروہی، سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار چلا آرہا ہے۔اس تشدد میں ہزاروں لوگ جن میں معصوم شہری، عورتیں، بچے اور سیاسی کارکن بھی شامل ہیں،اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جس میں روزانہ لاشیں گرتی ہیں۔جس میں گھر سے باہر نکلنے والا کوئی بھی شہری اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔جہاں جرائم پیشہ لوگوں کا راج ہے اور لوگ دن دیہاڑے لُٹ جاتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ کراچی کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے۔اس کا حل نہ تو فوری طور پر ممکن ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک سیاسی پارٹی کے بس کی بات ہے۔اس کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔لیکن اسے زیادہ دیر تک مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔کیوں کہ کراچی کو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔یہ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جس کے ذریعے ہمارا80فیصد سے زیادہ درآمدی اور برآمدی کاروبار ہوتا ہے۔ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 70 فیصد حصہ کراچی سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ کراچی سندھ کا دارلحکومت اور صوبے کا سیاسی،ثقافتی اور اقتصادی مرکز ہے۔اگرچہ کراچی پنجابی، بلوچی، پشتون اور اردو بولنے والے لوگوں کا مسکن ہے، تاہم بنیادی طور پر یہ شہر سندھ کا حصہ ہے۔ کراچی میں بسنے والے سندھیوں کی تعداد اگرچہ شہر کی کْل آبادی کا زیادہ بڑا حصہ نہیں ہے لیکن تاریخی، ثقافتی اور سیاسی طور پر کراچی کو سندھ سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی دنوں میں کراچی کو سندھ سے الگ کر کے اسے وفاق کے زیرانتظام کر دیا گیا تھا تو سندھیوں نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا اور اس سلسلے میں سندھیوں کے ایک وفد نے زیارت میں قائداعظم سے ملاقات بھی کی تھی۔قائداعظم نے سندھ کو کراچی سے الگ کرنے کی کبھی حمایت نہیں کی۔ البتہ اس ضمن میں انہوں نے سندھیوں کو ملک کی پہلی آئین سازاسمبلی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔کیونکہ بابائے قوم آئین اور قانونی طریقوں پر یقین رکھتے تھے۔ کراچی میں فوری طور پر امن وامان بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے اس مقصد کیلئے مختلف اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔لیکن کراچی کا مسئلہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے اس مسئلے کی جڑیں بڑی گہری ہیں۔امن وامان سے ہٹ کر بھی اس کے کئی پہلو ہیںجنہیںنظر انداز کر کے اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں نکالا جا سکتا۔یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ساتھ دوسری بڑی سیاسی پارٹیوں نے جمہوری اور سیاسی دور میں کراچی میں فوج کو بلانے اور شہرکو اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور اس کی بجائے صوبائی حکومت کی سرکردگی میں پولیس اور رینجرز کے ذریعے جرائم پیشہ افراد پر قابو پانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر کراچی کا مسئلہ مختلف سٹیک ہولڈرز(Stake Holders)کے درمیان اعتماد کے فقدان ،باہمی خوف اور نیتوں پر شک کی پیداوار ہے۔سندھیوں کو ڈر ہے کہ کراچی میں امن و امان خراب کر کے دراصل سندھ کو دوحصوں میں تقسیم کرنے اور کراچی کو صوبے سے علیحدہ کرنے کی اس سازش پر عمل ہو رہا ہے جس کا آغازقیام پاکستان کے فوراََ بعد ہی ہو گیا تھا۔اپنے اس موقف کی حمایت میںوہ ملک کے تمام حصوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اردو بولنے والے لوگوںکو سندھ کے شہری علاقوں اور خصوصاً کراچی میں آباد کرنے کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہیں۔اسی خدشے کے تحت سندھیوں نے بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کی پاکستان میں آمد اور ان کی کراچی میں آباد کاری کی سخت مخالفت کی تھی۔ سندھ کے دوبڑے لسانی گروہ یعنی سندھیوں اور اردو بولنے والے لوگوں کے درمیان بْعد کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابات میں دونوں کا فیصلہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔سندھی پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جبکہ کراچی، حیدرآباد،سکھر اور صوبے کے دیگر شہری علاقوں میں بسنے والے لوگ ایم کیو ایم کو مینڈیٹ دیتے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ پانچ برسوں میں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی صوبے میں اور مرکز کی سطح پر بھی اتحادی تھے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے درمیان باہمی تعاون اور اعتماد نہ ہونے کے برابر تھا۔ اقتدار میں حصہ دار ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو سندھ حکومت سے مسلسل شکائتیں رہیں اور وہ مختلف مواقع پر اپنی شرائط کو منوانے کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت پردبائو ڈالتی رہی۔اس میں حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی بھی شامل تھی جس پر عمل بھی کیاگیا،تاہم علیحدگی کا فیصلہ بعد میں واپس لے لیا گیا۔ ایم کیو ایم کے مطالبے پر سندھ کے سابق وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ان کے عہدے سے الگ کیا گیا۔ان ہی کے مطالبے پرلیاری امن کمیٹی کو توڑا گیا اور وہ علاقے جو پیپلز پارٹی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے،وہاں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے نام پر پولیس آپریشن کیاگیا۔پیپلز پارٹی کے رینک اینڈ فائل میں پارٹی ہائی کمانڈ کے اس رویے کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی تھی۔ جس طرح سندھی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ سندھ کو دوحصوں میں تقسیم کرنے اور کراچی کو صوبے سے الگ کرنے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے،اس طرح ایم کیو ایم جسے اردو بولنے والی آبادی کی بھاری حمایت حاصل ہے،کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ پاکستان کے دیگر حصوں سے پشتون،بلوچی،پنجابی اور سندھی لوگوں کی آمد کا سلسلہ اگر یونہی برقرار رہا تو کراچی میں آبادی کا تناسب ان کے حق میں نہیں رہے گا۔اسی بناء پر2004ء کے بعد کراچی میں آنے والے پشتون بے گھر افراد کی رجسٹریشن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔حالانکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کراچی کا رخ کرنے والے تمام پشتون دہشت گرد یا طالبان کے حامی نہیں تھے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان لڑائی کی یہ سب سے بڑی وجہ تھی۔ پانچ سال تک اتحادی رہنے کے باوجود اس وقت کراچی کے مسئلے پر ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔دونوں ایک دوسرے کو شہر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا ذمہ دار قراردے رہے ہیں۔سندھ کی ان دوبڑی جماعتوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے تیسری پارٹی یعنی وفاق کو کراچی میں مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔اگرچہ آئین کے تحت وفاقی حکومت کو ملک کے کسی بھی حصہ میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے امن وامان کے قیام اور ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے اقدام کا اختیار حاصل ہے۔ مزیدبرآں یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وفاقی حکومت کا اقدام نہ صرف آئین کی حدود میں رہ کر کیا جائے گا بلکہ جو آپریشن بھی شروع کیا جائے گا اس کی باگ ڈور صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہوگی۔اس کے باوجود وفاقی حکومت کی مداخلت کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سیاسی مفادات کے تحت اپنے اپنے طور پر معنی دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اسے سندھ کی موجودہ حکومت کو کمزور کرنے یاا س سے زیادہ سے زیادہ رعایات حاصل کرنے کا موقعہ گردانتی ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی اسے اٹھارویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی اور ایم کیو ایم سے مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش سمجھتی ہے۔حالانکہ وفاقی حکومت نے نہ صرف کراچی میں فوج بلانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے بلکہ دوٹوک الفاظ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ سندھ میں گورنر راج نا فذ نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کراچی میں ہیں اور حکومت کے آئندہ اقدام پر سندھ حکومت اور صوبے کی دیگر سیاسی پارٹیوں سے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ فیصلہ کرتے وقت وہ یقینا کراچی کے مسئلے کے سیاسی پہلو کو بھی مدِ نظر رکھیں گے۔