اندرونی محاذ پر کراچی میں اور پاکستانی طالبان کی طرف سے حکومت کو جن چیلنجوں کا سامنا تھا،ان سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے پر مبنی حکمتِ عملی طے کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی طرف سے بیرونی محاذ پر بھی قیام امن کے لیے اقدام کیے جارہے ہیں۔اس کی ایک مثال بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے پسِ پردہ سفارتی کوششیں ہیں۔ان کوششوں کے نتیجے میں نہ صرف اس ماہ کے آخر میں نواز شریف من موہن سنگھ ملاقات کے امکانات روشن ہوئے ہیں‘ بلکہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں نمایاں کمی بھی ہوئی ہے۔ مشرقی سرحدوں پر صورتِ حال میں بہتری لانے کے بعد حکومت اب مغربی سرحدوں یعنی افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ نظرآتی ہے۔پاکستان کی جیلوں میں بند سابق افغان طالبان جنگجوئوں اور کمانڈروں کی مرحلہ وار رہائی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔افغان طالبان کی رہائی کا یہ سلسلہ گزشتہ سال نومبر میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے تحت پاکستان نے 26افغان جنگجو اور کمانڈر رہا کیے تھے۔ان کی رہائی کے لیے صدر کرزئی کی حکومت نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا تھا تاکہ ان کے ذریعے ان افغان طالبان کو ہتھیار پھینکنے اور امن ومصالحت کے عمل میں شامل ہونے پر راضی کیا جا سکے جو بعض اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ان اسیرافغان طالبان کی رہائی میں تاخیر اور لیت و لعل پاک افغان تعلقات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی جسے دور کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کی طرف سے سب سے پہلا قدم نومبر2012ء میں اٹھایا گیا جب پاکستان کی قید سے 26افغان طالبان کو رہا کیا گیا۔لیکن اس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کوئی نمایاں فرق نہ پڑا اور دونوں ممالک میںشکوک و شبہات اور بدگمانی کی خلیج بدستور حائل رہی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کی حکومت، پاکستان کی طرف سے عام افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کو ناکافی سمجھتی تھی۔ اس کا مطالبہ تھا کہ ملا عبدالغنی برادر‘ جو کسی زمانے میں ملا عمر کے بعد افغان طالبان کا سب سے اہم لیڈر تھا‘ کو رہا کیا جائے۔ گزشتہ جولائی میں جب وزیراعظم کے مشیر خصوصی برائے خارجہ امور و نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز کابل تشریف لے گئے تھے تو اس موقعہ پر بھی صدر حامد کرزئی نے ملا برادر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا؛ تاہم سرتاج عزیز نے اس سلسلے میں کسی قسم کی یقین دہانی سے معذوری ظاہر کی تھی۔اسی طرح گذشتہ ماہ کے آخر میں صدر حامد کرزئی نے اپنے دورئہ پاکستان کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں ایک دفعہ پھر اس مطالبے کو دہرایا۔حکومتِ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ وہ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دینے کے لیے ہر قسم کا مثبت کردار اداکرنے کو تیار ہے جس میں پاکستان میں اسیر افغان طالبان کی رہائی بھی شامل ہے‘ لیکن یہ قیدی کب رہا کیے جائیں گے اور کتنی تعداد میں رہا کیے جائیں گے،اس کا فیصلہ حکومتِ پاکستان حالات کی نوعیت دیکھ کر کرے گی۔ گزشتہ اتوار یعنی 8ستمبر کو پاکستان نے7مزیدافغان طالبان قیدی رہا کردیے۔ان میں منصور داداللہ بھی شامل تھا۔ منصور داد اللہ مشہور افغان طالبان کمانڈر ملا داد اللہ کا بھائی ہے جسے افغان فوج اور نیٹو کمانڈوز کی ایک مشترکہ کارروائی میں تین سال قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 7مزید افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد سرتاج عزیز نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ پاکستان ملا برادر کو بھی رہا کر دے گا۔ سرتاج عزیز کے بیان کے مطابق یہ رہائی اسی ماہ متوقع ہے۔ اس کی تصدیق دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی کردی ہے لیکن تاریخ نہیں بتائی، بلکہ یہ کہا کہ ملابرادر کو رہاکر دیا جائے گا،مگر مناسب وقت پر۔ خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان قیدیوں خصوصاً ملا برادر کو رہا کرنے کے لیے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے سخت دبائو کا سامنا ہے کیوں کہ امریکہ کو امید ہے کہ رہائی پانے والے افغان طالبان کمانڈر،اپنے سابق ساتھیوں کو افغانستان میں امن اور مصالحت کی کوششوں میں شامل ہونے اور امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے میں مدددے سکتے ہیں۔اس بات کی تصدیق اس اطلاع سے بھی ہو جاتی ہے کہ سرتاج عزیز اور دفترخارجہ کے بیانات سے قبل 6ستمبر کو ابو ظہبی میں افغان سفارت خانہ میںافغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے قائم مقام خصوصی نمایندے ڈیوڈ پیئرس(David Pearce) افغانستا ن کے ڈپٹی وزیرخارجہ جاوید لڈن اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی تھی۔اس ملاقات کے بعد جیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان تمام افغان طالبان قیدیوں بشمول ملا برادر کو رہا کر دے گا۔ کیا افغان طالبان قیدیوں سمیت ملا برادر کی رہائی سے افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل تیز کرنے میں مدد ملے گی؟ اور کیاملا برادر اپنے پرانے ساتھی ملا عمر کو صدر کرزئی کی حکومت سے بات چیت کرنے پر آمادہ کر سکے گا؟اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ملا عمر کی قیادت میں لڑنے والے افغان طالبان صدر کرزئی کی حکومت کو امریکہ کی پٹھو حکومت سمجھتے ہیں اور اس سے وہ کسی طور بات چیت کرنے کو تیار نہیں۔کابل حکومت بھی ان افغان طالبان اور ملا برادر کی محض رہائی سے مطمئن نہیں بلکہ اس کا اصرار ہے کہ انہیں کابل حکومت سے رابطہ کرنے کی آزادی دی جائے۔ اس سے قبل جن افغان طالبان کورہا کیا گیا تھا‘ وہ روزِ اول سے ہی غائب ہیں۔ایک دفعہ ان کے بارے میں اطلاع موصول ہوئی تھی کہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دوبارہ افغان حکومت اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے ہیں۔اس لیے اگر تمام اسیر طالبان کو رہا بھی کر دیا جائے تو اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ جنگ کی بجائے امن کی راہ اختیار کریں گے۔اس لیے افغان حکومت نے اس پر محتاط طریقے سے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے؛ تاہم امریکہ نے اس کو قدرے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ ویلکم کیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رہائی کا یہ عمل دراصل امریکہ اور پاکستان میں کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے۔