ابھی اَپر دیر میں پاک فوج کے دو سینئر افسروں اور جوانوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا غم اور دکھ کم نہیں ہوا تھا ،کہ پشاور میں ہمارے مسیحی بھائیوں کی خْود کْش حملہ آوروں کے ہاتھوں موت نے ایک دفعہ پھر پوری قوم کو سوگوار بنا دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق پشاور کے علاقے کوہاٹی گیٹ میں ایک چرچ کے اندر عبادات کے اختتام پر شرکاء کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ اچانک دو حملہ آور نمودار ہوئے جنہوںنے لوگوں میں بھگدڑ مچانے کیلئے پہلے فائرنگ کی اور پھر خود کو بم سے اْڑا کر ہر طرف تباہی اور بربادی پھیلا دی۔ سرکاری طور پر 81افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں تین درجن کے قریب عورتیں اور 7بچے ہیں۔ڈیڑھ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔ان میں بھی عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ حکومت، اپوزیشن اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام اکابرین نے اس سانحہ کی مذمت کی ہے۔اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ حملہ ڈرون حملوں میں طالبان اور القاعدہ کے رہنمائوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے کیا گیا ہے اور جب تک ڈرون حملے بند نہیں کیے جاتے پاکستان میں موجود غیر ملکی اور غیر مسلم باشندوں پر اس قسم کے حملے جاری رہیں گے۔ پشاور میں دہشت گردی کا یہ واقعہ اور اس سے قبل سینئر فوجی افسروں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب حکومت پوری یک سوئی کے ساتھ امن کی خاطر طالبان سے بات چیت کیلئے کوشاں ہے‘ لیکن حکومت کی یہ کوشش یک طرفہ نظر آتی ہے کیوں کہ غیر مشروط پیش کش کے باوجود طالبان کی طرف سے شہریوں اور حکومت کے اہل کاروں پرحملے جاری ہیں۔لوگوں میں یہ تاثر تیزی سے پختہ ہو رہاہے کہ حکومت کے پاس دہشت گردوں کو اْن کی مذموم کارروائیوں کا موثر جواب دینے کیلئے ہمت نہیں۔اس قسم کا تاثر اگر واقعی جڑ پکڑ رہا ہے تو مْلک کے امن اور سلامتی کیلئے ہی نہیں بلکہ آزادی اور خود مختاری کیلئے یہ ایک خطر ناک رجحان ہے اور حکومت کو جتنی جلدی ممکن ہو اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکومت تذبذب کی شکار ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے یہ تو کہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات نے حکومت کیلئے امن کی راہ پر گامزن رہنا دشوار بنادیا ہے لیکن طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کی براہ راست مذمت سے گریزکیا ہے۔حالانکہ ٹی ٹی پی نے اس واقعہ کی براہ راست ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملے جاری رکھنے کی دھمکی دی ہے۔اس طرح عمران خاں نے اس حملے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف سازش قرار دیا ہے اور اس بات پر اپنی حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی مذاکرات کی بات چلتی ہے تو اس قسم کے واقعات رْونما ہو جاتے ہیں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کچھ خفیہ ہاتھ طالبان کے ساتھ حکومت پاکستان کی بات چیت کی کوششوں کو ناکام بنانے میں سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف،اْن کے وزیرداخلہ یا عمران جو بَن پڑے کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ معصوم شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار نہ صرف سزا سے بلکہ الزام سے بھی بچ نکلتے ہیں کیونکہ خود کْش حملوں کے ان جیسے واقعات پر حکومت اور چند سیاستدانوں کی طرف سے جو ردِعمل آتا رہا ہے،اْن میں طالبان کو براہ راست موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے،ذمہ داری براہ راست ’’پاکستان اور اسلام کے دشمنوں‘‘ پر ڈال دی جاتی ہے،اور ان میں طالبان اور ٹی ٹی پی کے ارکان شامل نہیں کیوں کہ9ستمبر کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی قرارداد کے مطابق وہ تو ہمارے لوگ ہیں حالانکہ پشاور میں دہشت گردی کے اس واقعہ کے علاوہ دیگر واقعات کی بھی اْنہوں نے ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کے ساتھ جس قسم کی دھمکی اْنہوںنے دی ہے وہ مْلک،قوم اور اس کے آئین اور قانون کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ ڈینائل موڈ(Denial Mode)کی یہ نئی یا پہلی مثال نہیں۔ جب سے پاکستان دہشت گردی،خود کْش حملوں اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار چلا آرہا ہے ہم نے ان گھنائونی کارروائیوں کے پیچھے چھپے چہروں کو بے نقاب کرنے کی بجائے، امریکہ، بھارت اور اسرائیل کو براہ راست موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ ان ملکوں کا نام لینے میں ذرا سا بھی تامل اس لیے نہیں کیا جاتا کیوں کہ نام لینے والوں کو پتہ ہے کہ ان ملکوں کا نام سْن کر پاکستانی قوم کے جذبات ایک دَم بھڑک اْٹھیں گے اور اس ہیجانی کیفیت میں کسی کا بھی دھیان اصل مجرموں کی طرف نہیں جائے گا۔حد تو یہ ہے کہ ان الزامات کے ثبوت میں ایسے مضحکہ خیزدعوے کیے جاتے ہیں کہ سْن کر ہنسی آتی ہے۔ مثلاً حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں طالبان کے ایک خودساختہ وکیل نے دعویٰ کیا کہ اْنہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ’’داڑھی والے ہندئووں‘‘ کو جو طالبان کے بھیس میںپاکستانی سکیورٹی فورسزکے خلاف لڑ رہے تھے،پکڑ کر رحمن ملک کے حوالے کیا تھا۔ رحمن ملک جو پیپلز پارٹی کی سابق حکومت میں وزیر داخلہ تھے،یہ تو کہتے رہے کہ بلوچستان کا مسئلہ غیر ملکی ایجنٹوں کا پیدا کردہ ہے،لیکن اْنہوں نے فاٹا میں ’’داڑھی والے ہندئووں‘‘ کی موجودگی کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔ اسی طرح چند برس پیشترلاہور کے ایک بہت بڑے مذہبی سکالر نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ قبائلی علاقے میں لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والے جنگجوئوں کی جب لاشوں کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ غیرمسلم تھے۔ان سب دعوئوں کی ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ کس طرح طالبان اور اْن کے ساتھی القاعدہ کے جنگجوئوں کو پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے بری الذمہ ثابت کیا جائے تاکہ نہ تو یہ عوام کے غضب اور غصہ کا شکار ہوں اور نہ ریاست کی مشینری ان کے خلاف حرکت میں آسکے۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں خود کْش حملے اس لیے کیے جا رہے ہیں کیوں کہ امریکی ڈرون قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجوئوں اور اْن کے طالبان ساتھیوںکو نشانہ بنا رہے ہیںتو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ طالبان کے ہاتھوں معصوم پاکستانی مرد،عورتوں اور بچوں کے بے رحمانہ قتل کا ذمہ دار دراصل امریکہ ہے،نہ کہ ٹی ٹی پی بعض صورتوں میں یہ عْذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کا واحد سرگرم گروپ نہیں ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی گروپ اور تنظیمیں ہیں جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔ڈی جی‘ آئی ایس آئی نے بھی آل پارٹیز کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں60سے زائددہشت گرد گروپ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کارروائی میں کون سا گروپ ملوث ہے۔ اس دلیل کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک تنظیم خود دہشت گردی کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے،تو اس کے ملوث ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔اور اگر پھر بھی اس کے برعکس اصرار کیا جائے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ واقعات کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔تاکہ اصل مجرم محفوظ رہیں اور قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔اگر پاکستانی قوم متواتر اسی ڈینائل موڈ(Denial Mode)میں رہی تو پھر ملک کے مستقبل کا اللہ ہی حافظ ہے۔