"DRA" (space) message & send to 7575

طالبان کی واپسی اور پاکستان

جمعیت علمائے اسلام(س)کے سربراہ مولاناسمیع الحق نے چند روز پیشتر ایک بیان میں کہا تھا کہ ملا عمر کی قیادت میں طالبان ایک دفعہ پھر افغانستان میں برسرِاقتدار آجائیں گے۔لیکن افغان نیشنل آرمی،پولیس اورسول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ طالبان کو افغانستان دوبارہ زیرتسلط لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اگرافغانستان میں طالبان دوبارہ برسرِاقتدار آجائیں تو پاک افغان تعلقات کس طرح کے ہوں گے؟ملک کے کئی حلقوں میں اس پر بحث کی جارہی ہے۔حتمی طور پر اس کے بارے میں ابھی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ؛ تاہم ماضی کے جھروکے میں جھانکتے ہوئے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان تعلقات کی کیا نوعیت ہو گی ۔افغانستان کے سیاسی افق پر اگرچہ طالبان1994ء میں ظاہر ہوئے لیکن کابل پر انہوں نے1996ء میں قبضہ کیا تھا۔اس طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت 1996ء سے2001ء تک رہی۔اس دوران میں ان کی حکومت کو صرف چار ممالک نے تسلیم کیاان میں سعودی عرب اور پاکستان بھی شامل تھے۔افغانستان کے جنوب میں واقع ایران اور شمال میں اس کے وسطی ایشیائی ہمسایہ ممالک میں سے کسی نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ان کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت کے تعلقات کشیدہ تھے۔طالبان اور طالبان حکومت سے پاکستان کی تین حکومتوں کا واسطہ پڑا: بے نظیر (1993ء تا 1996ء) ، نوازشریف(1997ء تا 1999ء) اور جنرل مشرف(1999ء تا 2008ء)۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی دو حکومتوںکے ادوار میں پاکستان اور طالبان کے درمیان کوئی تلخی،رنجش یا اختلاف نہیں تھے،بلکہ بے نظیر کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر)نصیراللہ بابر تو طالبان کو اپنی تخلیق سمجھتے تھے۔نواز شریف بھی طالبان کے مداح تھے بلکہ ایک موقعہ پر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظامِ عدل نافذکرنا چاہتی ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں طالبان احمد شاہ مسعود کی زیرکمان شمالی اتحاد کی فوجوں سے نبرد آزما تھے۔اس خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہیں عسکری امداد کی ضرورت تھی،جو بڑی فراخ دلی سے فراہم کی جارہی تھی۔ 2001ء میں القاعدہ کے خود کش حملہ آورں کے ہاتھوں احمد شاہ مسعود کی ہلاکت کے بعد طالبان کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہ رہا اور انہوں نے افغانستان کے اندرونی حالات پر توجہ دینی شروع کر دی۔جونہی ان کی گرفت افغانستان پر مضبوط ہوئی،طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔سب سے پہلا مسئلہ طالبان کی طرف سے بامیان میں مہاتمابدھ کے 14سوسال پرانے مجسمے کو تباہ کرنے کے اعلان سے پیدا ہوا۔عالمی برادری نے ،خصوصاً جہاں بدھ مت کے پیروکار کثرت سے آباد ہیں،پاکستان کے توسط سے طالبان کو اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ جنرل پرویز مشرف کے ایک سابق وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر کے بقول اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے ان کی قیادت میںایک خصوصی وفد ملا عمر سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ملا عمر کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ نہ مانے اور طالبان نے مہاتمابدھ کے اس بے جان مجسمے کو بارود سے اُڑا دیا،جسے محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری نے بھی ہاتھ نہیں لگایاتھا۔اسی دوران پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکومت کے درمیان کئی اور مسائل پر سنگین اختلافات پیدا ہو گئے جو آخر وقت تک حل طلب رہے۔ان میں سے ایک مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کے ڈیورنڈ لائن دنیا کے انتہائی پورس بارڈرز(Porous Borders)میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹرطویل اس سرحد کے آرپار اب بھی پچاس ہزار سے زائد افراد ہر روز آتے جاتے رہتے ہیں۔لیکن کچھ بھی ہو یہ ایک بین الااقوامی سرحد ہے اور پاکستان کی آزادی،علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا سمبل(Symbol)ہے اور اس کے آرپار آمدورفت کو کسی قانونی طریقے اور ضابطے کے ماتحت لانا پاکستان کا حق بھی ہے اور قومی مفاد کا تقاضا بھی۔لیکن طالبان ،جن کے لیڈر اور کارکنان اکثر پاکستان آتے تھے،نے کسی قسم کی پابندی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ بغیر کسی پاسپورٹ یا اجازت نامہ کے جہاں سے چاہیںجب چاہیں پاک افغان سرحد عبورکریں گے۔حالانکہ پاکستان نے پانچ ایسے مقامات کی نشان دہی کررکھی تھی جہاں سے پاسپورٹ یا اجازت نامہ کے ساتھ افغان با شندوں کو سرحد پارکرنے کی اجازت تھی۔جب پاکستان نے پاسپورٹ اور دیگر ضروری سفری کاغذات پر اصرار کیا تو ملا عمر نے جنرل صاحب کو جواب دیا کہ افغانستان کے لوگ انتے غریب ہیں کہ وہ اپنی جیب سے پاسپورٹ نہیں بنوا سکتے۔پاکستان اگر پاسپورٹ کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ افغان باشندوں کے پاسپورٹ کے تمام جملہ اخراجات اٹھائے۔ افغانستا ن کی درآمدی اور برآمدی تجارت کراچی کی بندرگاہ کے راستے ہوتی ہے۔1965ء کے ٹرانزٹ ٹریڈ ایگری منٹ کے تحت افغانستان کو بند کنٹینرز میں اپنی ضروریات کا سامان پاکستان کے راستے منگوانے کی اجازت ہے۔جنرل معین الدین حیدر کے مطابق پاکستانی تاجروں اور صنعتکاروں کے ایک وفد نے جنرل پرویز مشرف سے شکایت کی کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگری منٹ کے تحت بند کنٹینرز میں افغانستان پہنچنے والا سامان سمگل ہو کر پاکستان کی باڑہ مارکیٹوں میںپہنچ رہا ہے۔اس سامان میں الیکٹرانک چیزیں ،ٹی وی ،شیو اور عورتوں کا میک اَپ کا سامان بھی شامل تھا۔اس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کو ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا تھابلکہ یہ سامان تیار کرنے والی صنعتیں بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔جب طالبان کو یاد دلایا گیا کہ اس سامان کی افغانستان میں کوئی کھپت نہیں،کیوں کہ ٹی وی کو انہوں نے درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی تھی،مردوں کے لیے داڑھی لازمی تھی اور عورتوں پر میک اپ کی پابندی تھی تو ان اشیا کو ٹرانزٹ ٹریڈ ایگری منٹ کے تحت کیوں درآمد کیا جارہا ہے؟جنرل صاحب کے بقول طالبان نے اس منطق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ داڑھی رکھنا،میک اَپ اور ٹی وی پر پابندی کا تعلق مذہب سے ہے جبکہ ان کی درآمد کاروبار ہے جو کہ ہمارا پیشہ ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ان عناصر کاتھا،جو پاکستان میں شیعہ برادری کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر افغانستان بھاگ جاتے تھے۔طالبان حکومت انہیں نہ صرف پناہ فراہم کر رہی تھی بلکہ انہیں مختلف ہتھیاروں کے استعمال میں ماہر بنانے کے لیے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے تھے۔جب پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد خطر ناک حدوں کو چھونے لگا تو جنرل حیدر کے مطابق مشرف حکومت نے طالبان حکومت بلکہ ملا عمر سے براہ راست رابطہ کرنے کافیصلہ کیااور اس مقصد کے لیے ایک وفد بھی تشکیل دیا گیاجس کے سربراہ جنرل معین الدین حیدر خود تھے۔پاکستان نے شکایت کی کہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے جو لوگ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں نہ صرف افغانستان میں پناہ دی جارہی ہے بلکہ طالبان حکومت کے زیر نگرانی ان کے تربیتی کیمپ بھی موجود ہیں۔پاکستان نے مطالبہ کیا کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث چند ہائی پروفائل دہشت گردوں کو جن میں ریاض بسرا بھی شامل تھا،پاکستان کے حوالے کیا جائے۔طالبان نے پہلے تو اس بات کی سرے سے تردید ہی کردی کہ ان کے ہاں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث عناصر پناہ لیتے ہیںیا ان کے لیے تربیتی کیمپ ہیں،لیکن جب پاکستانی حکام نے نشان دہی کر کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا ثبوت دیا تو طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ان کیمپوں کو بند کر دیں گے بلکہ مطلوبہ مجرموں کو بھی پاکستان کے حوالے کردیں گے۔جنرل معین الدین حیدر کے مطابق طالبان حکومت نے ان میں سے کوئی بھی وعدہ پور نہ کیا اور اسی اثنا میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہو گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگرنائن الیون کا واقعہ پیش نہ آتا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت برقرار رہتی تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ان مسائل کے علاوہ دیگر کئی مسائل پیدا ہونے کا قوی امکان تھا۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دوبارہ برسراقتدار آنے کی صورت میں طالبان کے افغانستان اور پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات ہوں گے۔ (اس کالم میں جنرل معین الدین حیدر سے منسوب بیانات اس انٹرویو کا حصہ ہیں جو مصنف نے2008ء میں ایک ریسرچ پیپر تیار کرنے کے لیے جنرل صاحب سے لیا تھا)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں