کراچی میں جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف رینجرزاور پولیس کا مشترکہ آپریشن گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ جب اس آپریشن کو شروع کرنے کی بات ہو رہی تھی تو ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے اس پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اعتراض یہ تھا کہ پاکستان کے اس شہر میں جو نہ صرف آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑاشہر ہے،بلکہ صنعت،تجارت اور کاروبار کا مرکزبھی ہے،رینجرز1996ء سے تعینات ہیں،لیکن ان کی اس طویل موجودگی سے کراچی میں مختلف جرائم یعنی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری،اغوا برائے تاوان اور سرِراہ دن دیہاڑے پرس، موبائل اور گاڑی چھیننے کی وارداتوں میں کمی نہیں آئی۔اس کے علاوہ چند افسوسناک واقعات میں رینجرز کے ملوث ہونے کی وجہ سے بھی،اس نیم فوجی فورس پر انگلیاںاٹھائی جارہی تھیں اور اس بات پر زور دیا تھا کہ رینجرز کے ہاتھوں کراچی میں امن ممکن نہیں۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے،اس کے بارے میں توخود اس کے اعلیٰ افسروں کا کہنا تھا کہ اس میں کئی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔سیاسی بنیادوں پر پولیس بھرتی کے الزامات تو عام تھے،بعض حلقوں کے مطابق خود پولیس کے سپاہی متعدد جرائم میں ملوث تھے۔ اس لیے مطالبہ تھا کہ فوج کو بلایا جائے۔ ایک مخصوص حلقے سے نہ صرف پولیس،رینجرز پراعتراضات اٹھائے جا رہے تھے،بلکہ صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا جا رہاتھا۔لیکن کراچی میں فوج بلانے کے مطالبہ کی کسی دوسری سیاسی پارٹی نے حمایت نہیں کی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے سیاسی پارٹیوں، کراچی کے تاجروں اور صوبائی حکومت کے نمائندوں سے مشاورت کے بعد 4ستمبر کو پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت جاری کردی۔ کراچی میں امن وامان کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کیلئے اس سے پہلے بھی کئی آپریشن آزمائے جا چکے ہیں مگر موجودہ آپریشن سابق آپریشنوں سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ایک ایسے موقع پر لانچ کیا گیاہے جب مرکز اور صوبے یعنی سندھ میں دومختلف پارٹیوں کی حکومت ہے۔ ماضی میںحکومت کو یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ اس دفعہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں اس کی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔آئین کے تحت امن وامان صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد صوبے اپنے حقوق کے بارے اور بھی محتاط ہو چکے ہیں۔اس لیے ابتدائی مراحل میں سندھ کی صوبائی حکومت مرکزی حکومت کے اقدامات کو شک کی نظر سے دیکھ رہی تھی بلکہ ایک آدھ موقع پرتو سندھ حکومت نے وفاقی حکومت پر صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے منصوبے کابھی الزام عائد کر دیا تھا۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں جو قدم اٹھایا ہے،وہ بڑی سوچ بچار اور تمام سیاسی اور قانونی پہلوئوں پر غورکرنے کے بعد اٹھایا گیاہے اور سب سے بڑی بات کہ تمام پارٹیوں کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد اٹھایا ۔ اس کیلئے انہوں نے صوبائی حکومت کو نہ صرف اعتماد میں لیابلکہ آپریشن کی قیادت بھی صوبائی حکومت کو سونپ دی لیکن وفاقی حکومت اس سے باہر نہیں ہے‘ بلکہ آپریشن میں جوفورسز بھر پور حصہ لے رہی ہیں وہ وفاقی ہیں۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ جس آپریشن پر اس کے آغاز سے پہلے سخت تنقید کی جارہی تھی،اب نہ صرف بارآور ثابت ہو رہا ہے بلکہ اس کی ستائش بھی کی جارہی ہے۔عوام کی بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ اس آپریشن کی وجہ سے کراچی کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔اگرچہ جرائم کی وارداتیں اب بھی جاری ہیں اور شہر کے کئی حصوں میں مجرم کارروائی کرنے کے بعد بڑی آسانی سے غائب ہو جاتے ہیں‘ لیکن آپریشن سے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور دیگر جرائم کی وارداتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کامیابی کی تین وجوہ ہیں۔اول: صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت میں طریق کار اور آپریشن کے مقاصد پر مکمل اتفاق اور ہم آہنگی ہے۔ سندھ حکومت نے اس آپریشن کی مکمل حمایت کی اور کہا ہے کہ رینجرز اور پولیس قابلِ ستائش کام کر رہی ہیں۔ دوئم: اس آپریشن میں رینجرز،پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مکمل تعاون ہے۔4ستمبر کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا‘ اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آپریشن میں رینجرز کو پولیس کی پوری پوری امداد حاصل ہو گی۔انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے ذرائع سے جرائم پیشہ لوگوں کے نام اور ان کے ٹھکانوں سے پولیس اور رینجرز کو مطلع کریں گی اور رینجرز اور پولیس مل کر آپریشن کریں گی۔ماضی میں رینجرز اور پولیس کو شکایت رہی کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ(Intelligence Sharing)نہیں کرتی ہیں اور اس وجہ سے ان کے آپریشن بے سود رہے۔ سوئم:کراچی یا ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی اور جرائم پر مکمل طور پر قابو پانے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہمارے قانونی اور انتظامی نظام میں موجود خامیاں ہیں۔کراچی میں آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے اس طرف توجہ دی اور زاہد حامد کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی‘ جو مختلف قوانین میں خامیوں کو دور کرنے کیلئے ضروری ترامیم کی سفارش کرے گی۔ان قوانین میں قانونِ شہادت بھی شامل ہے۔ ان ترامیم کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد سزا سے نہ بچ سکیں۔ کراچی میں جاری آپریشن کے بارے میں ابھی صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ درست سمت میں جارہا ہے۔جوکامیابی حاصل ہوئی ہے وہ اگرچہ محدود لیکن قابلِ قدر ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سب سے زیادہ اہم لوگوں کو قاتلوں،بھتہ خوروں اور اغوا کنندگان کے اس خوف سے باہر نکالنا ہے جس میں کراچی کے لوگ برسوں سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ڈی جی رینجرزکے ایک حالیہ بیان کے مطابق آپریشن کے ایک ماہ بعد بھی لوگوں کے ذہنوں پر جرائم پیشہ افراد کا خوف طاری ہے۔اس کی وجہ سے جرم کی واردات کے چشم دید گواہ ہونے کے باوجود،لوگ عدالت میں گواہی دینے کیلئے تیار نہیں۔اس صورتِ حال میں عدالتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں اور مجرموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کرنا پڑتا ہے۔ ایک کامیاب آپریشن اور جرائم کو ہمیشہ کیلئے جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کیلئے ضروری ہے کہ جہاں پولیس،انٹیلی جنس ایجنسیاں اور رینجرز آپس میں تعاون کر رہی ہیں،وہاں عدلیہ اور عوام بھی آگے بڑھ کر پولیس اور رینجرز کے ساتھ تعاون کریں تاکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے۔