کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے حکومت پاکستان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا تو طالبان بھی مذکرات میں سنجیدگی سے حصہ لیں گے۔ پہلے بھی ٹی ٹی پی کی طرف سے اس قسم کا موقف سامنے آتا رہا ہے۔ اس سال کے آغاز میں جب طالبان نے مذاکرات کی پیش کش کر کے واپس لینے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی انہوں نے اس کا ذمہ دار حکومت کے غیرسنجیدہ رویے کو قرار دیا تھا۔ گویا طالبان نے گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دیا ہے اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس سمیت ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی انٹرویو میں حکیم اللہ محسود نے ان شرائط کو بھی دہرایا جو اس سے پہلے ٹی ٹی پی کے ترجمان میڈیا کے ذریعے بیان کرتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ امریکی ڈرون حملے بند کیے جائیں اور اگر یہ بند نہیں ہوں گے تو طالبان بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ ٹی ٹی پی کو معلوم ہے کہ امریکہ ڈرون حملے بند نہیںکرے گا کیونکہ جن علاقوں کو ان حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جا رہا ہے وہاں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور ان ٹھکانوں سے نکل کر وہ ناصرف افغانستان میں امریکی اور نیٹوفورسز پر حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے دہشت گردوں کو پناہ بھی دیتے ہیں۔ جب تک افغانستان میں جنگ جاری ہے‘ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔ تین سال قبل جب سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئی تھیں تو ڈرون حملوں کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد وار زون ہے‘ امریکہ کو اپنے دفاع کے لیے ہر کارروائی کا حق پہنچتا ہے۔ امریکہ نے اگر افغانستان سے اپنی بری افواج نکال لیں تب بھی ان ڈرون حملوں کے جاری رہنے کا قوی اندیشہ ہے۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان آج کل ہونے والے سٹریٹجک مذاکرات میں جو مسائل زیربحث ہیں، ان میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان حملوں کے خلاف ایئر کور (Air Cover) کی فراہمی بھی شامل ہے۔ حکیم اللہ محسود نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے باوجود پاکستان کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بالفاظ دیگر پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی دہشت گردی کی جن کارروائیوں میں ملوث ہے، ان کا افغانستان میں امریکہ کی موجودگی سے کوئی تعلق نہیں اور امریکی اور نیٹو افواج اگر افغانستان سے نکل بھی جائیں تو پاکستان میں ٹی ٹی پی خود کش حملے، بم بلاسٹ اور سکیورٹی فورسز پر اپنے حملے جاری رکھے گی۔ یہ بیان پاکستان میں ان سیاستدانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو آئے دن ٹی وی چینلز پر اور پریس کانفرنس میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے ہے اور جس دن امریکہ افغانستان سے رخصت ہو جائے گا پاکستان میں دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس بیان میں حکیم اللہ محسود نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کی جنگ دو وجوہات کی بنا پر لڑ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان امریکہ کا دوست ہے اور امریکہ کے کہنے پر پاکستان میں علما قتل کیے گئے ہیں اور دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں اس وقت کافرانہ نظام ہے جس کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت پاکستان سے مذاکرات کا مقصد ہتھیار پھینک کر پرامن شہری بن کر رہنا نہیں بلکہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ان کا جو نقصان ہو رہا ہے اس سے محفوظ ہو کر پاکستان کے مروجہ دستوری نظام اور طریقہ زندگی کے خلاف جہاد جاری رکھنا ہے۔ اس بیان کے بعد حکومت پاکستان مذاکرات کے بارے میں کیا موقف اختیار کرے گی؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن طالبان نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ پاکستان کے موجودہ آئینی اور جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔ طالبان کے اس موقف کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف کے اس بیان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جو انہوں نے نیویارک میں دورہ امریکہ کے دوران دیا تھا کہ طالبان کو حکومت کی رٹ تسلیم کرنا پڑے گی اور ان کے ساتھ مذاکرت پاکستان کے آئین اور قانون کے فریم ورک میں ہوں گے۔ حکیم اللہ محسود نے کہہ دیا ہے کہ طالبان 2014ء کے بعد بھی پاکستان میں شریعت کے نفاظ کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس سے پہلے طالبان کی طرف سے مذاکرات کی جو پیش کشیں کی جاتی رہی ہیں ان میں شریعت کے نفاذ کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انٹرویو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو شریعت کے نفاذ سے مشروط نہیںکیا جا رہا ہے: البتہ انہوں نے نفاذ شریعت کی جدوجہد کو آئین اور قانونی فریم ورک میں جاری رکھنے کی بات بھی نہیں کی۔ پاکستان میں اور بھی مذہبی‘ سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہیں لیکن وہ اپنی جدوجہد کو ملکی آئین اور قانو ن کے دائرے کے اندر رہ کے جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ طالبان اس موقف کو رد کر چکے ہیں اور حکیم اللہ محسود کے انٹرویو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوں یا نہ ہوں، وہ اپنے حملے جاری رکھیں گے۔ حکیم اللہ محسود نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ ٹھوس اور سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے ڈائیلاگ کے حامی نہیں حالانکہ اس سے قبل طالبان کی طرف سے جب بھی کوئی پیش کش کی گئی وہ میڈیا کے ذریعہ ہی کی گئی‘ اور ان پیش کشوں کے جواب میں اگر موجودہ یا سابق حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا تو اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ تھی کہ مذاکرات کی پیش کش ہمیشہ میڈیا کے ذریعہ ہی کی جاتی رہی‘ حکومت کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ میڈیا کے ذریعے مذاکرات کی پیش کش دراصل طالبان کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں۔ حکیم اللہ محسود کے انٹرویو کے بعد یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان ابھی تک مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیوں نہیں ہوا۔ دراصل فریقین کے درمیان مذاکرات کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔حکومت نے دیگر سیاسی پارٹیوں کو ایک کانفرنس میں بْلاکر مذاکرات کے حق میں مینڈیٹ تو لے لیا لیکن اس میں سے کوئی بھی پارٹی بشمول وفاقی حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ مذاکرات کس بنیاد پر ہوں گے اور ان کا کیا ایجنڈا ہے؟یا حکومت ان مذاکرات سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔حکومت اور طالبان کے موقف ایک دوسرے سے اتنے الگ اورمختلف ہیں کہ درمیان میں کوئی مقام ایسا نظر نہیں آتا جہاں دونوں ایک نکتے پر متفق ہو کر باقی معاملات کو سلجھانے کیلئے بات چیت کریں۔غالباََ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کیلئے ابھی تک نہ حکومت اور نہ طالبان کی طرف سے کوئی ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کس سے ہوں گے؟کس مقصد کیلئے ہوں گے اور کن بنیادوں پر ہوں گے؟