دنیا کے حسین ترین ممالک میں سے ایک سوئٹزر لینڈ کا شہر جنیوا‘ اپنے قدرتی حُسن‘ گھڑیوں اور بینکوں کی وجہ سے ہی مشہور نہیں بلکہ عصرِ حاضر کی امن اور جنگ سے متعلقہ تقریباً تمام اہم بین الاقوامی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم (1914-1918ء) کے خاتمے کے بعد جب پہلی بین الاقوامی تنظیم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو جنیوا میں ہی اس کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا۔ تخفیف اسلحہ کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی (Committee on Disarmament) کا صدر مقام بھی مستقل طور پر جنیوا ہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ء) کے بعد پیدا ہونے والے بعض اہم تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی جنیوا کا انتخاب کیا گیا۔ مثلاً تین دہائیوں پر مشتمل طویل عرصے تک جاری رہنے والی ویت نام جنگ کے خاتمہ کے لیے 1954ء میں امریکہ‘ ویت نام‘ چین اور روس کے درمیان بات چیت کے لیے بھی جنیوا کا انتخاب کیا گیا۔ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے لیے 1988ء میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کے لیے بھی مذاکرات جنیوا میں ہی منعقد ہوئے تھے۔ آج کل اسی شہر میں ایک اور اہم بین الاقوامی تنازع یعنی ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی چین‘ امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ امریکہ (P-5) اور جرمنی حصہ لے رہے ہیں اور ان کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کے خدشات کو دور کر کے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کہیں ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تو نہیں بنا رہا؟ ایران نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے والے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کر رکھے ہیں اور اسی معاہدے کی شرائط کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا سکتا۔ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ایران کی دفاعی حکمت عملی میں ایٹمی ہتھیاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ان ہتھیاروں کی تیاری اور ان کا استعمال اسلام میں قطعاً ممنوع ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی متعدد رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے۔ طاقت کے استعمال کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر جن سفارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا‘ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات اُن کا حصہ ہیں۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ کافی پرانا ہے؛ تاہم آج سے 4 سال قبل جب امریکی دبائو کے تحت ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو ایران نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ گزشتہ اگست میں نئے ایرانی صدر حسین روحانی کے منتخب ہونے کے بعد ان مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا امکان پیدا ہوا کیونکہ صدر روحانی نے ایرانی مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور امریکہ کے خدشات کو دور کرنے کی پیشکش کی اور یہ بھی ارادہ ظاہر کیا کہ ایران امریکہ یورپی ممالک اور آئی اے ای اے سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکہ نے صدر روحانی کی جانب سے مثبت اشاروں کا خیر مقدم کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جاوید ظریف کے درمیان نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ 27 ستمبر کو صدر اوباما کی طرف سے صدر روحانی کو ایک ٹیلیفون کال نے فضا کو اور بھی بہتر بنا دیا۔ جنیوا میں فریقین کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان کے دوران فریقین کے درمیان کوئی بریک تھرو نہیں ہوا؛ تاہم ایرانی‘ یورپی اور امریکی ذرائع نے انہیں مثبت اور حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔ مذاکرات میں شامل امریکی مندوب نے کہا ہے کہ ایران سے جوہری تنازع پر اتنے تفصیلی‘ ٹھوس اور بھرپور مذاکرات کبھی نہیں ہوئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام پارٹیوں نے مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے اور 15 اکتوبر کو شروع ہونے والے دو دن کے مذاکرات کے بعد فریقین نے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل تجاویز کا ایک جامع پیکیج پیش کیا ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ ان تجاویز پر مرحلہ وار عمل کر کے جوہری تنازع کو ایک سال کی مدت میں مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ امریکی اور یورپی ذرائع نے اگرچہ ان تجاویز کے بارے میں کچھ بتانے سے انکار کیا ہے؛ تاہم معلوم ہوا ہے کہ ایران نے دو معاملات میں لچک دکھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ایک یہ کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو ایک سطح سے آگے نہیں لے جائے گا۔ یعنی ایران 20 فیصد افزودہ یورینیم کی بجائے 5 فیصد افزودہ یورینیم تیار کرے گا‘ جس سے جوہری ہتھیار نہیں بنائے جا سکتے لیکن اسے توانائی کی جنریشن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کی زیادہ مفصل انسپکشن کی اجازت دے گا۔ ان اقدامات کو باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے لیکن ان کے ساتھ ایران نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ بین الاقوامی قانون اور این پی ٹی کی دفعات کے تحت ایران کو ایسا کرنے کا حق حاصل ہے اور نہ ایران اس تجویز کو مانے گا کہ اُس کی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کسی اور ملک کے حوالے کر دیئے جائیں۔ ایران نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ایٹمی تنصیبات کی کسی اچانک اور بغیر اطلاع کے انسپکشن کی اجازت نہیں دے گا۔ اس لیے ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر حتمی اور تسلی بخش سمجھوتہ کب ہوگا؟ سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان اختلافات اور عدم اعتماد کی ایک بڑی خلیج حائل ہے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید وسیع ہو چکی ہے۔ اسرائیل اور ا مریکی کانگرس کے ہارڈ لائن (Hard Line) حلقے اب بھی ایران پر بدگمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کرنے اور اس کے ایٹمی پروگرام کو بزورِ طاقت تباہ کرنے کی حمایت کر رہے ہیں لیکن صدر اوباما کی سربراہی میں امریکی حکومت کی سوچ قدرے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس مسئلے کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے امریکی محکمہ خارجہ نے ایک طرف تو کانگرس سے استدعا کی ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے منصوبے کو موخر کردیں اور دوسری طرف سیکرٹری خارجہ جان کیری عنقریب اسرائیلی وزیراعظم سے ملنے والے ہیں تاکہ اسرائیل کو امریکہ کے موجودہ مؤقف پر جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جا سکے۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود غالب امکان یہی ہے کہ مذاکرات نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ ان میں پیش رفت بھی ہوگی کیونکہ اس انتہائی اہم تنازع پر سمجھوتہ صرف امریکہ کی ضرورت نہیں بلکہ ا یران بھی اس کے لیے بے چین ہے۔ امریکہ کے لیے یہ سمجھوتہ اس لیے ضروری ہے کہ ناکامی کی صورت میں صدر اوباما کے پاس سوائے طاقت کے استعمال کے اور کوئی آپشن نہیں رہے گا کیونکہ اطلاعات کے مطابق اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے موجودہ عمل کو جاری رکھا تو اگلے چھ ماہ میں وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ ایران کے لیے یہ ڈیل اسی لیے ضروری ہے کیونکہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت ہی متاثر نہیں ہوئی‘ وہ دنیا میں الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر مزید پابندیاں عائد کی گئیں تو ا یرانی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ صدر حسین روحانی ایسا نہیں چاہتے‘ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ایرانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کو ختم کروانے کی کوشش کریں گے‘ تاکہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ایرانی قوم بھی ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار ہو سکے۔