بدھ کے روز وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی جناب سرتاج عزیز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ممکنات اور قومی سلامتی کے دیگر مسائل پر بیان دے رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے بتایا کہ امریکہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہیں کیے جائیں گے لیکن ان کے بیان کو بارہ گھنٹے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک دینی مدرسے کے ایک کمرے کو ڈرون طیاروں سے راکٹوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کمرے کو نشانہ بنایا گیا‘ اس میں‘ اطلاعات کے مطابق‘ تین مہمان ٹھہرے ہوئے تھے جن کے ساتھ تین اور افراد بھی ہلاک ہو گئے۔ جو مہمان ہلاک ہوئے ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا سے تھا اور وہ حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر تھے۔
یہ ڈرون حملہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس کا ہدف پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بجائے صوبہ سرحد کے ایک ضلع میں واقع ہے۔ اس کی بنا پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بھی نیٹو سپلائی روکیں گے۔ ان کے اس اعلان سے وفاقی حکومت کے علاوہ مختلف حلقے بھی سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نیٹو سپلائی بند کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ٹرک ڈرائیوروں اور کنٹینرز لے کر جانے والوں کو ایک وارننگ ہی کافی ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنی جان اور مال عزیز ہے۔ اس لیے عمران خان 23 نومبر کو پشاور رنگ روڈ پر جس مقصد کے حصول کے لیے ایک ''تاریخی جلسہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ ہزاروں
لوگوں کو اکٹھا کر کے نیٹو سپلائی لے جانے والے ٹرکوں اور کنٹینرز کی راہ روکیں گے تو دوسری سیاسی پارٹیاں یقیناً اپنے تحفظات کا اظہار کریں گی۔ یہی وجہ ہے تحریک انصاف کا اس وقت صرف جماعت اسلامی ساتھ دے رہی ہے۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم سرے سے ہی اس اقدام کو بے سود سمجھتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام نیٹو سپلائی کی بندش کی حامی ہونے کے باوجود عمران خان کی تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔ حتیٰ کہ قبائلی علاقوں سے منتخب ارکان قومی اسمبلی بھی عمران خان کی طرف سے اعلان کو یک طرفہ قرار دے رہے ہیں‘ بلکہ ان کے نزدیک عمران خان کی سولو فلائٹ سیاسی پارٹیوں کو اس مسئلے پر ایک جگہ کھڑا کرنے کی بجائے اُن کی صفوں میں انتشار کا باعث بن رہی ہے لیکن عمران خان‘ جنہوں نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر نیٹو سپلائی روکنے کا پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا‘ زیادہ طیش میں نظر آتے ہیں اور ان کے طیش کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ ڈرون حملہ شمالی وزیرستان کی بجائے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوا ہے۔
تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعت اسلامی کے علاوہ بعض انتہا پسند مذہبی جماعتیں اور گروپ اس بات کو بنیاد بنا کر ڈرون حملے روکنے کے لیے نیٹو سپلائی کی بندش سے بھی آگے کے اقدام کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جن میں ڈرون طیاروں کو شُوٹ ڈون کرنا بھی شامل ہے‘ لیکن کیا ایسا کرنا کسی سیاسی پارٹی یا حکومت کے بس میں ہے؟ بیشتر مبصرین کی رائے میں ایسا کرنا ناممکن نہیں مگر زمینی حقائق اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان زمینی حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان سے جنگ کرنے والی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) کے لیے رسد کی سہولت فراہم کرنا پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے‘ جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے چارٹر کے ساتویں باب کی دفعات کے تحت کر رکھا ہے۔ 9/11 کے بعد سلامتی کونسل کی منظور کردہ تمام قراردادوں کے مطابق دہشت گردی کے قلع قمع کی خاطر ہر ملک کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ گریز کرنے والوں کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ کیا پاکستان ان اقتصادی پابندیوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟
تازہ ترین ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے تین افراد حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کی موجودگی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے کیونکہ اب تک پاکستان کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ کہا جا رہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان کی سرزمین پر سرگرم عمل ہے اور امریکی دعوئوں کے برعکس پاکستان میں ان کے نہ اڈے ہیں اور نہ ہی ان کا پاکستان سے کوئی اور تعلق ہے‘ لیکن حقانی نیٹ ورک کے یہ اہم کمانڈر پاکستانی علاقے میں مارے گئے ہیں۔ اس سے قبل حقانی نیٹ ورک کے ایک اور اہم کمانڈر اور سراج الدین حقانی کے بھائی نصیرالدین حقانی اسلام آباد میں پُراسرار طریقے سے ہلاک کر دیئے گئے تھے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ایک عرصے سے نہ صرف اسلام آباد میں مقیم تھے بلکہ اپنی تنظیم کی طرف سے تفویض کردہ فرائض کی سرانجام دہی میں اکثر اور بلاروک ٹوک افغانستان اور پاکستان کے درمیان چکر لگاتے رہتے تھے۔ ذرا سوچیے ان انکشافات سے پاکستان کے بارے میں دنیا کو کیا پیغام جاتا ہے۔ یہی کہ پاکستان وہ سرزمین ہے جہاں دنیا بھر سے جہادیوں کو آنے‘ ٹھہرنے اور پھر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ان غیرملکی عناصر (غیر ملکی عناصر کی تعریف میں افغان طالبان بھی آتے ہیں) کی سرگرمیاں صرف قبائلی علاقوں تک محدود ہیں‘ اب پتہ چلتا ہے کہ ان کے وجود سے پاکستان کا کوئی حصہ خالی نہیں۔ جن ممالک کے خلاف یہ عناصر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں وہ بھی ان کے تعاقب میں پاکستان کے کسی حصے میں کارروائی کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا کیا حشر ہو گا؟۔
مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ڈھونڈ مارنے کے بعد امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے دہشت گرد دنیا کے خواہ کسی حصے میں بھی ہوں‘ امریکہ انہیں اسامہ بن لادن کی طرح ڈھونڈ نکالے گا اور کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ نے ایبٹ آباد جیسے مزید آپریشنوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں امریکی ڈرون قبائلی یا سیٹلڈ (Settled) علاقوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھیں گے۔ اگر آج ہنگو میں ڈرون حملہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح کے دوسرے مقامات‘ جہاں حقانی نیٹ ورک یا القاعدہ کے لوگ پناہ لیے ہوں گے‘ امریکی ڈرون اُن پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
عمران خان اور اُن کی حلیف پارٹیوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ان بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکنے کا واحد ذریعہ نیٹو سپلائی کو بلاک کرنا ہے لیکن صرف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی کاوشوں سے یہ ممکن نہیں۔ اس لیے کہ طورخم کے راستے سپلائی بند ہو بھی جائے تو بلوچستان کے راستے جاری رہے گی اور پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری کا ردعمل کیا ہو گا لیکن اس سے پیشتر وفاقی حکومت کی طرف سے ایک بین الاقوامی کمٹمنٹ (Commitment) کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش پر سخت ردعمل کا قومی امکان ہے کیونکہ کوئی بھی حکومت اپنے دائرہ اختیار میں کسی اور ایجنسی کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی۔ ڈرون حملوں کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں اُن دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینے سے احتراز کریں جو صرف ہمارے معصوم عوام کے خون سے ہی ہولی نہیں کھیل رہے بلکہ ہمارے بعض ہمسایہ اور دیرینہ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کا باعث بن رہے ہیں۔