دس برس کے صبرآزما انتظار اور مسلسل کوششوں کے بعد ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر بالآخر ایک تاریخی سمجھوتے پر اتفاق ہوگیا ہے۔یہ سمجھوتہ اگرچہ چھ ماہ کے لیے طے پایا ہے لیکن جیسا کہ ایرانی وزیر خارجہ محمدجواد ظریف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ریمارکس میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امن اور تعاون کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔امریکی صدر باراک اوباما اور سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری جنہوں نے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں اپنے ملک کی خود نمائندگی کی ،نے بھی اس معاہدے کو تاریخی دستاویز قرار دیا ہے۔صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے ایران کے جوہری پروگرام پر ایک جامع اور مکمل معاہدے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
یہ معاہدہ تین لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے تحت ایران کے یورینیم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کیاگیا ہے، تاہم معاہدہ کی شرائط کے مطابق ایران کو صرف تین اعشاریہ پانچ فیصد حد تک یورینیم کی افزودگی کی اجازت ہوگی۔اس سطح تک افزودہ یورینیم کو بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ میں تو استعمال کیاجاسکتا ہے ، تاہم اس سے جوہری ہتھیار نہیں بنائے جاسکتے۔دوسرے اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی تمام ایٹمی تنصیبات کی بین الاقوامی نگرانی قبول کرنے کااعلان کیا ہے۔ اس شرط کے مطابق اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ایٹمی انسپکشن یعنی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(IAEA) روزانہ کے معمول پر ایرانی جوہری تنصیبات کی انسپکشن کرسکے گی۔اب تک ایرانی اور مغربی ممالک کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام پر جو مذاکرات ہوئے تھے ان کی کامیابی کی راہ میں یہ دونوں نکات سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔مغربی ممالک کا مطالبہ تھا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر بند کرے جبکہ ایران کا اصرار تھا کہ بین الاقوامی قانون اور ایٹمی پھیلائو کو روکنے والے معاہدے (NPT) کے تحت اسے یہ حق حاصل ہے۔اسی طرح ایرانIAEAکو بھی اپنی تمام جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھا۔جنیوا میں ایران اور چھ ممالک جن میں پانچ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور جرمنی شامل ہے ، نے شرکت کی ۔ان مذاکرات کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تمام ممالک کے وزرائے خارجہ گفتگو میں شامل تھے۔یورپی یونین کی نمائندگی اس تنظیم کے خارجہ معاملات کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کررہی تھیں۔
اس معاہدے کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ معاہدہ محض ایران اور امریکہ کے درمیان طے نہیں پایا بلکہ اس میں دنیا کی تمام طاقت ور قومیں شامل ہیں۔ایک طرف امریکہ ہے اور اس کے اتحادی ممالک یعنی برطانیہ ، فرانس اور جرمنی اور دوسری طرف روس اور چین۔ایران کے ساتھ اس معاہدے میں ان سب ممالک کی شمولیت اس معاہدے کو ایک عالمگیر اہمیت فراہم کرتی ہے۔
معاہدے کے تحت ایران نے مغربی ممالک کے ان تمام خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جن کی بنیاد پر ایران کے مخالف عناصر خصوصاً اسرائیل پروپیگنڈہ میں مصروف تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو دنیا کے سامنے پُرامن ظاہر کرکے دراصل خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے میں مصروف ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے بالکل بجا کہا ہے کہ یہ معاہدہ فریقین میں اعتماد سازی کی جانب دراصل پہلا لیکن اہم قدم ہے۔ یورینیم کی افزودگی کو نچلی سطح پر رکھنے اور بین الاقوامی معائنے کا مطالبہ تسلیم کرنے کے علاوہ ایران نے اراک (ARAK) میں بھاری پانی کے ایک پلانٹ پر بھی مزید کام روکنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اگلے چھ ماہ کیلئے اپنے جوہری پروگرام کے تمام شعبوں میں
مزید کام کو روک دیا ہے،مگر یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری رہے گا،البتہ یہ افزودہ یورینیم ویپن گریڈ کے مطابق نہیں ہوگا۔اس کے بدلے مغربی ممالک ایران کے خلاف اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کی طرف سے عائد شدہ اقتصادی پابندیوں کو اٹھانے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔اس اقدام کے نتیجے میں ایران کو کم از کم سات بلین ڈالر کا فوری فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ اس کے منجمد اثاثے واپس مل جائیں گے اور اس کے پٹرولیم کی برآمد پر پابندیاں نرم ہوجائیں گی۔اقتصادی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اس کی کرنسی کی قیمت ناقابلِ یقین حد تک گرچکی تھی اور وہ ملک جو ایک زمانے میں سعودی عرب کے بعد پٹرولیم ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا اس کی پٹرولیم کی برآمدات آدھی رہ چکی تھیں۔اگرچہ یہ معاہدہ صرف چھ ماہ کے لیے ہے۔اس مدت کے دوران مغربی ممالک ایک فائنل اور جامع معاہدے کی خاطر مزید بات چیت کریں گے اور اگر یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھتے یا ایران کی طرف سے اس معاہدے کی کسی شرط کی خلاف ورزی کا ثبوت مل جاتا ہے تو اقتصادی پابندیوں کو دوبارہ عائد کیاجاسکتا ہے۔
تاہم بین الاقوامی حلقوں میں اس معاہدے کو ایک اہم بریک تھرو ،خصوصاً صدر اوباما کی ایٹمی ڈپلومیسی کی ایک اور اہم کامیابی قرار
دیا جارہا ہے۔صدر اوباما نے پہلی بار صدر منتخب ہونے کے بعد ہی ایران کے ایٹمی مسئلے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔وہ اس مسئلے کو طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے ،لیکن سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کی ہارڈ لائن پالیسی کی وجہ سے سفارتی محاذ پر کوئی پیش قدمی نہ ہوسکی۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اور امریکی کانگریس میں اسرائیل کے حامی ارکان نے صدر اوباما پر ایران کے خلاف طاقت استعمال کرنے یا اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کردیا۔بالآخر صدر اوباما کی سفارت کاری پر مبنی پالیسی کامیاب رہی اور جان کیری کی انتھک کوششوں سے ایران کے جوہری پروگرام پر ڈیل طے پائی۔
لیکن جہاں امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک اراکین اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے اس معاہدے کا خیر مقدم کیاگیا ہے ،وہاں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کانگریس اس معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔اسرائیل کو بھی یقینا اس معاہدے پر مایوسی ہوگی کیونکہ وزیراعظم نیتن یاہو کئی مرتبہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دے چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے معاہدے کے فوراً بعد اسرائیل کے وزیراعظم کو رام کرنے کے لیے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔اگر اسرائیل اور اس کی حامی امریکی لابی کی مخالفت جاری بھی رہتی ہے تب بھی یہ معاہدہ برقرار رہے گا کیونکہ اس کی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اسے عالمگیر سطح پر پذیرائی حاصل ہوچکی ہے۔